حق کي حتمي حجت رسول اللہ

13

سوال

اس دعوي کي دليل قرآن و حديث ميں کہاں ہے کہ “حق کي حتمي حجت رسول اللہ ہيں” ؟

جواب

شايد آپ غامدي صاحب کے اس جملے کہ “حق کي حتمي حجت رسول اللہ ہيں” کا مطلب سمجھنے ميں ہم سے مختلف ہيں ، ورنہ يہ ہو نہيں سکتا کہ آپ کو اس سے اختلاف ہو۔ اس جملے کا يہ مطلب ہرگز نہيں کہ رسول اللہ تو حق کي حتمي حجت ہيں جب کہ اللہ تعالي نہيں ہيں اور نہ اس جملے کا مطلب يہ ہے کہ کلام اللہ يعني قرآن حق کي حتمي حجت نہيں ہے ، بلکہ رسول اللہ ہيں۔ اس سے مراد صرف يہ ہے کہ خدا کي طرف سے ملنے والے حق کا حامل صرف رسول ہوا کرتا ہے ، صوفي، ولي اللہ ، صاحب الہام يا صاحب کشف و کرامت حضرات خدا کي جانب سے ملنے والے حق کے حامل نہيں ہوتے۔ اب چونکہ يہ آخري رسول کا دور ہے ، لہذا ، اب اس زمين پر خدا کي طرف سے ملنے والے حق کي حتمي حجت صرف محمد رسول اللہ ہي ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ آپ پر ايمان لانے والے اسي چيز کو حق کہتے تھے جسے آپ بطور حق بيان فرماتے تھے۔ چنانچہ عربي کے جس متن کو آپ نے قرآن کہا لوگوں نے اسي کو قرآن قرار ديا ، جن اعمال کو آپ نے سنت قرار دے کر امت ميں جاري کيا وہي اعمال سنت کي حيثيت سے امت ميں جاري ہوئے۔ آج بھي آپ کے حق کي حتمي حجت ہونے کي يہ صورت ہر جگہ ديکھي جا سکتي ہے کہ آپ ہي کے لائے ہوئے قرآن کو ساري امت خدا کا فيصلہ کن کلام مانتي ہے اور اسے دين کا ماخذ قرار ديتي ہے۔ اسي طرح وہ آپ ہي کي جاري کردہ سنت کو اعمال ديني کي حيثيت سے قبول کرتي ہے۔ قرآن مجيد ميں امت کے اس رويے کے صحيح ہونے کي دليل يہ ارشادات باري ہيں:

وما أرسلنا من رسول الا ليطاع باذن اللہ۔ (النساء4: 64)

اور ہم نے جو رسول بھي بھيجا تو اسي ليے بھيجا کہ اللہ کے حکم سے اس کي اطاعت کي جاۓ۔

وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا۔ (الحشر59: 7)

اور رسول جو تمھيں دے اس کو لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ۔ 

وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشيرا و نذيرا۔ (سبا34: 28)

اور ہم نے تو تم کو سب لوگوں کے واسطے بس بشير و نذير بنا کر بھيجا ہے۔

استاذ محترم جاويد احمد صاحب غامدي “حق کي حتمي حجت” ہي کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہيں:

“حق کي حتمي حجت
نبوت اللہ تعالي نے اپنے آخري پيغمبر محمد صلي اللہ عليہ وسلم پر ختم کر دي ہے۔ اس وجہ سے اب يہ حق اس زمين پر کسي شخص کو بھي حاصل نہيں رہا کہ وہ اپني کسي راۓ اور نقطۂ نظر کو حق کي حتمي حجت اور اپنے کسي قول و فعل کو حق و باطل کا معيار قرار دے کر لوگوں سے اس کي پيروي کا مطالبہ کرے۔ يہ صرف پيغمبر ہي کا حق ہے کہ اس کے بارے ميں يہ کہا جائے کہ: ” فليحذر الذين يخالفون عن امرہ ان تصيبھم فتنۃ او يصيبھم عذاب اليم”۔ اور يہ صرف اسي کامقام ہے کہ اس کے متعلق خود عالم کا پروردگار يہ اعلان کرے کہ: ” فلا وربک لا يؤمنون حتي يحکموک فيما شجر بينھم ، ثم لا يجدوا في انفسھم حرجًا مما قضيت، ويسلموا تسليمًا”۔ اللہ کے پيغمبر کے بعد اب اس زمين پر جو شخص بھي يہ دعوت لے کر اٹھے ، اس کا منصب يہي ہے کہ وہ اپني بات قرآن وسنت کے دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پيش کرے اور اس کے بارے ميں مخاطبين پرواضح کردے کہ يہ اس کي تحقيق ہے اور وہ اس کي صحت پر مطمئن ہے ، ليکن اس ميں غلطي کا امکان وہ بہرحال تسليم کرتا ہے۔ اس کو لوگوں سے جو کچھ کہنا ہے ، بربناے دلائل کہنا ہے اورصرف ان دلائل کي قوت ہے جس کي بنا پران سے اپني کوئي بات منوا ليني ہے۔ اس کے علاوہ اب کوئي الہام ، کوئي القا ، کوئي خواب اور کوئي شرح صدر بھي يہ حيثيت نہيں رکھتا کہ اس کے حامل کے متعلق يہ دعوي کيا جائے کہ: ان الحق يدور معہ حيث دار۔ (بے شک جہاں يہ ہستي گھومتي ہے حق اس کے ساتھ گھوتا ہے) ” (برھان ، ص288 ، 289)

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-11

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading