اتمام حجت سے متعلق ایک سوال

22

سوال

میں نے غامدی صاحب کی کتاب میزان کا مطالعہ کیا۔ اس میں کچھ باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں اس لیے آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ ۱۔ غامدی صاحب کا موقف ہے کہ اتمام حجت کے بعد ہی ہم کسی کی تکفیر کر سکتے ہیں، تو پھر قرآن میں کفار، کافرون، وغیرہ کے الفاظ کیوں ہیں جب کہ اس وقت نبی بھی ان میں موجود تھا اور اتمام حجت کا مرحلہ بھی نہیں آیا تھا۔ اسی طرح مشرک بھی کہا گیا ہے، برائے مہربانی تفصیلی وضاحت فرمائیں۔ ۲۔ کیا ہم ہندؤوں اور یہود و انصار کے مرنے پر ان کی مغفرت کی دعا کر سکتے ہیں؟ ۳۔ کیا ہم ہندؤوں کو اور اہل کتاب کی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ شادی کروا سکتے ہیں، یعنی ایک مومن لڑکی کو کسی ہندو کے نکاح میں دیا جا سکتا ہے؟ تفصیلی وضاحت مطلوب ہے۔

جواب

١۔ سرداران قریش پر اتمام حجت مکہ ہی میں ہو چکا تھا، یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دعواے نبوت کی صداقت واضح کرنے کے لیے اللہ کی حکمت کے تحت جو کچھ آیات اور دلائل ان کے سامنے رکھنا مناسب تھا، وہ رکھ دیے گئے تھے۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے جانتے بوجھتے حق کو قبول کرنے سے گریز کیا، جبکہ کچھ لوگوں نے حق پر غور کرنے سے اپنے دل ودماغ کو اس طرح بند کر لیا کہ اس کے نتیجے میں حق کی معرفت حاصل کرنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ دونوں میں سے کوئی بھی صورت ہو، اللہ کی طرف سے ‘اتمام حجت’ بہرحال کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد انھیں ‘کافر’ یعنی جانتے بوجھتے حق کا انکار کرنے والا قرار دینے میں کوئی مانع نہیں تھا۔

٢۔ ایسے لوگوں کے بارے میں مغفرت کی براہ راست اور صریح دعا کرنے کے بجائے زیادہ محتاط اسلوب وہ ہے جسے قرآن میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے۔ قیامت کے دن جب اللہ کی عدالت میں وہ نصاریٰ کے عقیدہ الوہیت سے اپنی براء ت کا اعلان کر دیں گے تو اپنی قوم کے حق میں ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے سفارش فرمائیں گے:

إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ (المائده: ١١٨)

”اگر تو انھیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انھیں معاف فرما دے تو بے شک تو ہی غالب، حکمت والا ہے۔”

٣۔ قرآن مجید نے مشرک مردوں سے مسلمان عورتوں جبکہ مشرک عورتوں سے مسلمان مردوں کے نکاح سے صریح الفاظ میں منع فرمایا ہے، (بقرہ: ٢٢١) اس لیے ہندووں سے نکاح کی شرعاً کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ مسلمانوں کو اہل کتاب کی پاک دامن خواتین سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (مائدہ: ٥) حکم کے اسلوب بیان سے فقہا نے بجا طور پر یہ اخذ کیا ہے کہ یہ اجازت ان کی خواتین سے نکاح کرنے تک محدود ہے اور مسلمان خواتین ان کے مردوں سے نکاح نہیں کر سکتیں۔ واللہ اعلم

مجیب: Ammar Khan Nasir

اشاعت اول: 2015-10-08

محمد عمار خان ناصر
WRITTEN BY

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر 10 دسمبر 1975ء کو گوجرانوالہ کے قصبہ گکھڑ منڈی میں ملک کے ایک معروف دینی و علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو دیوبندی مسلک کا علمی ترجمان سمجھا جاتا ہے جبکہ ان کے والد مولانا زاہد الراشدی جن کا اصل نام عبد المتین خان زاہد ہے ایک نہایت متوازن رویہ رکھنے والے مذہبی اسکالر اور دانش ور کے طور پر معروف ہیں۔

1989ء سے 2000ء تک الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے مجلہ ماہنامہ الشریعہ کے معاون مدیر رہے اور بعد میں اس کے باقاعدہ مدیر کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

عمار خان ناصر، 1990ء کے لگ بھگ جاوید احمد غامدی سے متعارف ہوئے اور غیر رسمی استفادے کا سلسلہ 2003ء تک جاری رہا۔ جنوری 2004ء میں المورد سے باقاعدہ وابستہ ہوئے اور 2010ء تک کے دورانیے میں "جہاد۔ ایک مطالعہ" اور "حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث" کے زیرعنوان دو تصانیف سپرد قلم کیں۔ ان دنوں المورد کے ریسرچ فیلو کے طور پر جاوید احمد غامدی کی کتاب میزان کا توضیحی مطالعہ ان کے زیرتصنیف ہے۔

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading