قرآن سے متعہ کا ثبوت

261

سوال

پانچویں پارے کے شروع میں متعہ کا ذکر موجود ہے۔ کیا اس آیت میں متعہ کی اجازت دی گئی ہے یا عربی میں نکاح ہی کو متعہ کہتے ہیں؟

جواب

نکاح اور متعہ میں فرق ہے۔ نکاح میں مرد و عورت زندگی بھر کے لیے ازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں، جبکہ متعہ میں وہ کم یا زیادہ بہرحال، ایک متعین مدت تک کے لیے یہ تعلق قائم کرتے ہیں۔ عربوں کے ہاں متعہ رائج تھا، لیکن اسلام نے اسے حرام قرار دے دیاہے۔

قرآن مجید کی جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، وہ درج ذیل ہے:

وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِہٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ.(النساء 24)

”اور ان (محرمات) کے ماسوا عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں، اس طرح کہ تم اپنے مال کے ذریعے سے ان کے طالب بنو، اُن کو قید نکاح میں لے کر، نہ کہ بدکاری (مادہ منویہ بہانے) کے طور پر، پس ان میں سے جن سے تم نے تمتع کیا ہو تو ان کو ان کے مہر دو، فریضہ کی حیثیت سے۔ مہر کے ٹھہرانے کے بعد جو تم نے آپس میں راضی نامہ کیا ہوتو اس پر کوئی گناہ نہیں۔”

یہی وہ آیت ہے جس کے خط کشیدہ الفاظ سے متعہ کو ثابت کیا جاتا ہے، لیکن ان سے متعہ کو ثابت کرنا بالکل غلط ہے، کیونکہ یہ آیت جس سیاق و سباق میں آ رہی ہے، اس میں پہلے اُن خواتین کا ذکر ہے جو نکاح کے لیے حرام ہیں، پھر فرمایا کہ ان کے ماسوا نکاح کے لیے حلال ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ تم ان سے وقتی بدکاری (مادہ منویہ بہانے) کے طور پر تعلق قائم نہ کرو، بلکہ باقاعدہ نکاح کر کے عورت کو اپنی حمایت و حفاظت میں لو اور انھیں ان کے مہر دو، چنانچہ اِن حلال عورتوں میں سے جن سے تم باقاعدہ نکاح کر کے زن و شو کا تعلق تو قائم کر چکے ہو، لیکن تم نے ابھی ان کے مہر نہیں دیے، اُنھیں اُن کے مہر دو، پھر مہر کی اس ادائیگی کے بعد اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے اس میں کوئی کمی بیشی کر لیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

اس آیت میں ‘ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ ‘کے وہ الفاظ موجود ہیں، جن کا مطلب ہی یہ ہے کہ ”تم ا ن کے طالب بنو مال (مہر) کے ذریعے سے، ان سے نکاح کرکے انھیںاپنی حمایت و حفاظت میں لیتے ہوئے، نہ کہ وقتی بدکاری (مادہ منویہ بہانے) کے طور پر تعلق قائم کرتے ہوئے”۔ چنانچہ یہ آیت دراصل متعہ، جو کہ وقتی نکاح ہوتا ہے اور جس میں اصلاً مادہ منویہ بہانے کے سوا نہ اولاد اور نہ عورت کی مستقل حفاظت و حمایت، اس طرح کا کوئی مقصد پیش نظر نہیں ہوتا، اُس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر رہی ہے۔ لہٰذا اس کو متعہ کے حق میں کسی طرح بھی پیش ہی نہیں کیا جا سکتا۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-07

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading