سوال
منکر نکیر کون ہیں۔ اسلام کا ان کے بارے میں تصور کیا ہے۔ ان کے میت سے سوالات اور ان کے جواب پر رد عمل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
جواب
قرآن مجید میں احوال برزخ کے حوالے سے زیادہ تفصیلی بیانات نہیں ہیں۔ لیکن اس سے بہرحال یہ ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے بھی کچھ احوال ضرور پیش آتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں شہدا کے نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کا ذکر موجود ہے اسی طرح آل فرعون کے صبح شام عذاب پر پیش جانے کا تذکرہ بھی قرآن مجید میں ہوا ہے۔
عذاب قبر یا احوال قبر کے حوالے سے احادیث میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں ان کا تعلق اصل میں احوال برزخ سے ہے لیکن اس کے لیے قبر کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے۔ یہ طریقہ غالبا اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ ہم مردے کو قبر ہی دفن کرتے ہیں تاکہ ہمارے اس مشاہدے کی رعایت رہے۔
منکر نکیر کے حوالے سے جو بات آپ نے ذکر کی وہ ترمذی کی روایت بیان ہوئی ہے۔
عن أبي هريرة قال قال رسول الله إذا قبر الميت أو قال أحدكم أتاه ملكان أسوادان أزرقان يقال لأحدهما منكر والآخر نكير فيقولان ما كنت تقول في هذا الرجل فيقول ما كان يقول هو عبد الله ورسوله أشهد أن لاإله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله فيقولان قد كنا نعلم أنك تقول هذا ثم يفسح له في قبره سبعون ذراعا في سبعين وينور له فيه ثم يقال له نم فيقول أرجع إلى أهلي فأخبرهم فيقولان نم نومة العروس الذي لا يوقظه إلا أحب أهله حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك وإن كان منافقا قال سمعت الناس يقولون فقلت مثلهم لا أدري فيقولان قد كنا نعلم أنك تقول هذا فيقال للأرض التئمي عليه فتلتئم عليه حتى تختلف أضلاعه فلا يزال فيها معذبا حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك
“حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے نیلے دوفرشتے آتے ہیں ان میں سے ایک کو منکر کہا جاتا ہے اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ وہ دونوں پوچھتے ہیں تم اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے رہے ہو تو وہ وہی کہتا ہے جو وہ (دنیا میں) کہتا رہا ہے۔ یہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں ہم جانتے تھے کہ تم یہی کہو گے پھر وہ اس کی قبر کو ستر ستر ہاتھ کھول دیتے ہیں اور اس کے اس میں روشنی کر دیتے ہیں پھر وہ اسے کہتے ہیں سوجا لیکن وہ کہتا ہے میں اپنے گھر والوں کی طرف پلٹ کر ان کو بتاتا ہوں۔ لیکن وہ اسے کہتے ہیں تو اس دلہن کی طرح سوجا جسے اس کے محبوب کے سوا کوئی نہیں اٹھاتا یہاں تک کہ اسے اس کے اس بستر سے اس کا پرودگار اٹھا کھڑا کرے۔ اگر منافق ہوا تو وہ یہ کہے گا کہ ان کے بارے میں نے لوگوں کو جوکہتے سنا وہی میں نے کہہ دیا۔ میں نہیں جانتا۔ وہ کہیں گے ہمیں معلوم تھا کہ تم یہی کہو گے۔ پھر قبر سے کہا جائے گا کہ اس پر تنگ ہو جائے وہ اس پر تنگ ہو جائے گی یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جائيں گی۔ وہ اسی طرح عذاب میں رہے گا یہاں تک کہ اللہ اس سے اس کے بستر سے اٹھا کھڑا کرے۔”
اس روایت میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں ان سے ایک بات تو بالکل واضح محسوس ہوتی ہے کہ اس میں وہ احوال بیان ہوئے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مسلمانوں اور منافقین کو عالم برزخ میں پیش آئیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بعد کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی سوال و جواب ہوں گے۔ بالعموم علما نے اس کا جواب اثبات میں دیا ہے۔ میرا رجحان یہ ہے کہ عالم برزخ میں ہر شخص کو یہ جتا دیا جائے گا کہ اسے کس گروہ میں شمار کیا گیا ہے اور اس کی اس حالت کے اعتبار ہی سے وہ نعمت یا نقمت کی حالت میں ہوگا۔ البتہ سوالات اس کے احوال کے مطابق ہوں گے جن سے اس کے ایمان وعمل کی دنیا میں جو نوعیت تھی وہ واضح ہو جائے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-11