سوال
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت سے محکمے وجود میں آ گئے تھے تو کیا انھوں نے کرایے اور معالجوں کی فیسوں پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد کی تھی، جیسا کہ غامدی صاحب کے خیال میں یہ عائد ہونی چاہیے؟
جواب
اس زمانے میں تنخواہ پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد نہیں کی جاتی تھی۔ اگر بعض چیزوں پر زکوٰۃ عائد کرنا اور بعض کو اس سے مستثنیٰ قرار دینا امیر ریاست کا کام ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے تو پھر یہ لازم نہیں رہتا کہ جو کچھ وہاں موجود نہیں تھا، وہ یہاں بھی موجود نہ ہو۔ وقت اور زمانے کی تبدیلی سے حالات بدل جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہو جاتاہے کہ نئے حالات میں شریعت کے اطلاقات کو از سر نو متعین کیا جائے۔ شریعت کے اسی اطلاق کی تعیین کے حوالے سے استاذ محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں:
”…جو کچھ صنعتيں اِس زمانے ميں وجود ميں لاتيں اوراہل فن اپنے فن کے ذريعے سے پييدا کرتے اورجو کچھ کرایے ، فیس اورمعاوضہء خدمات کی صورت ميں حاصل ہوتا ہے ، وہ بھی اگر مناط حکم کی رعايت ملحوظ رہے تو پيداوار ہی ہے۔ اِس وجہ سے اِس کا الحاق اموال تجارت کے بجاے مزروعات سے ہونا چاہيے اوراِس معاملے ميں وہی ضابطہ اختيار کرنا چاہيے جوشريعت نے زمين کی پيداوار کے لےے متعين کيا ہے ۔” (میزان ٣٥٣)
”… اِس اصول کے مطابق کرایے کے مکان ، جائداديں اوردوسری اشيا اگر کرائے پراٹھی ہوں تو مزروعات کی اوراگر نہ اٹھی ہوں تواُن پرمال کی زکوٰۃعائد کرنی چاہیے۔” (میزان ٣٥٤)
یہ درج بالا نقطہء نظر غامدی صاحب کا اجتہاد ہے جسے وہ اپنے استدلال کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، ان کے نزدیک یہ صحیح ہے، لیکن اس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-07-11