سوال
میرا سوال یہ ہے کہ تنخواہ پر زکوٰۃ ہر مہینے دینی ضروری ہے یا سال میں ایک ہی بار دینا کافی ہے؟ اگر سال میں ایک ہی بار دیں گے تو کیا بارہ (١٢) ماہ کی کل تنخواہ کا حساب کر کے دینی پڑے گی یا موجودہ رقم پر ہی زکوٰۃ دینا ہو گی جتنی کہ فی الحال انسان کے پاس موجود ہو؟ مہربانی فرما کر قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیے۔
جواب
آپ نے پوچھا ہے کہ تنخواہ پر زکوۃ کیسے ادا کرنی ہے۔پہلے تو یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ روایتی فقہی مکاتب تنخواہ پر زکوۃ کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک تنخواہ سے اخراجات کرنے کے بعداگر کوئی رقم بچے گی تو اسی پر زکوۃ عائد ہوگی۔ وہ بھی جب وہ رقم نصاب سے زائد ہو۔استاد محترم کی رائے یہ ہے کہ تنخواہ کو پیداوار کے ساتھ ملحق کرنا چاہیے اور اس پر عشر یعنی دس فیصد کی شرح عائد کی جانی چاہیے۔ یہ عشر ہر تنخواہ پر عائد ہو گابشرطیکہ تنخواہ نصاب سے زیادہ ہو۔ پیداوار کا نصاب چونکہ سالانہ پیداوار کے حوالے ہی سے بیان ہوا ہے اس لیے تنخواہ سے ہونے والی آمدنی کا حساب بھی سالانہ بنیاد پر ہی ہو گا جس سے یہ طے ہو گا کہ کوئی تنخواہ زکوۃ کی حد میں آتی ہے یا نہیں۔مراد یہ ہے کہ آپ اپنی بارہ ماہ کی آمدنی جمع کریں گے اگر یہ نصاب سے زیادہ ہو گی تو آپ اس کا دس فیصد زکوۃ میں ادا کریں گے اور اگر یہ نصاب سے کم ہے تو آپ پر کوئی زکوۃ نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو سالانہ آمدنی پر بننے والی زکوۃ ایک ہی بار ادا کردیں ۔ لیکن جیسا کہ ہم عرض کیا ہے زکوۃ ہر تنخواہ پر بھی ادا کر جا سکتی ہے۔پیداوار کی صورت میں ہونے والی آمدنی کا نصاب ٦٥٣کلو گرام کھجور ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-23