سوال
مقدر کیا ہے؟ اسلام میں قسمت کا کیا تصور
ہے؟ میرا عقیدہ ہے کہ اللہ ہمیں عمل کی توفیق دیتا ہے۔ ہم اس کے پلان کے
مطابق متحرک ہوتے ہیں۔ جب ایک آدمی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے مقدر میں لکھا
ہوا ہوتا ہے۔ کیا ہمیں اپنے مقدر پر قابو حاصل ہے؟
جواب
مقدر اور قسمت کے الفاظ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں۔ ہم جب اللہ کے علم، قدرت اور اقتدار کے محیط ہونے کا شعور حاصل کرتے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز طے شدہ ہے۔ ہمارے لیے شاید کوئی آزادی اور خود فیصلے کاکوئی موقع نہیں ہے۔
لیکن یہ طرز فکر درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محیط علم، کامل قدرت اور ہمہ گیر اقتدار کے باوجود ہم انسانوں کو علم وعمل کی آزادی دی ہے۔ انسانوں کا یہ دور زندگی آزمایش کا دور ہے۔ یہ آزمایش مکمل ہونے پر کامیاب ابدی انعام کے مستحق ہوں گے اور ناکاموں کو ہمیشہ کی سزا ملنے والی ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے اور اللہ تعالیٰ سراپا عدل ہیں کہ انسانوں کے فیصلوں اور عمل پر کوئی قدغن نہ ہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو اسی اصول پر استوار کیا ہے۔
اگر مقدر کا لفظ ہی بولا جائے تو قرآن مجید کے مطابق انسانوں کی سب سے بڑی تقدیر یہ ہے کہ وہ ایک آزمایش میں ڈالے گئے ہیں اور اس میں انھیں پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے حق قبول کریں چاہے ناحق، چاہے نیکی کریں اور چاہے برائی۔ چنانچہ یہ تصور ہی درست نہیں ہے کہ کوئی برائی کسی کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔اگر یہ بات مان لی جائے تو قرآن مجید کی ساری دعوت اپنے معنی کھو دیتی ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-08-06