رمضان میں شیطان کے باندھ دیے جانے کا اصل مفہوم کیا ہے؟

11

سوال

میں چند سوالات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ برائے مہربانی اپنا قیمتی وقت نکال کر ان کا جواب دیتے ہوئے شکریے کا موقع دیجیے۔ ١۔ قرآن مجید میں ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے سرکش شیاطین کو زنجیروں سے باندھ لیا تھا۔ یہ باندھنا کیسا تھا؟ مزید یہ کہ رمضان میں شیطان کے باندھ دیے جانے کا اصل مفہوم کیا ہے؟ ٢۔ سلیمان علیہ السلام نے جب ملکہ سبا کا تخت لانے کے لیے کہا تو ایک جن نے کہا کہ میں محفل برخاست ہونے سے پہلے یہ تخت لے آؤں گا۔ اور دوسرے شخص نے جو زیادہ علم والا تھا نے کہا کہ میں پلک جھپکنے میں وہ تخت لا سکتا ہوں اور قرآن کے مطابق اس نے وہ لا کر بھی دیا۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ کیسا علم تھا جس کے ذریعے ایک کام اتنے کم وقت میں ہو گیا۔
برائے مہربانی اپنے علم کے رہنمائی فرمائیے۔

جواب

-آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:١) قرآنِ کریم کی تصریحات سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جس نوعیت کی بادشاہی عطا فرمائی تھی اور اپنی مخلوقات پر جو تصرف انہیں عطا فرمایا تھا اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں پائی جاتی۔ جو واقعات آپ نے بیان کیے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حضر سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولیاں جانتے تھے، انہیں اپنے کاموں میں استعمال کرتے تھے۔ حتٰی کہ چیونٹی کی بات بھی سمجھ لیتے تھے۔ مادی عناصر سے لے کر ہواؤں تک پر آپ کو یکساں تصرف حاصل تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں جنوں پر بھی قدرت دی تھی۔ جنھیں وہ اپنے مختلف تعمیراتی کاموں میں استعمال کرتے تھے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ واضح ہے کہ یہ سرکش جن تھے۔ جنہیں بطورِ سزا حضرت سلیمان کی غلامی میں دے دیا گیا تھا۔ چنانچہ جس طرح عام قیدیوں کو جیل میں رکھا جاتا اور ضرورت پڑنے پر اُن سے مختلف کام کرائے جاتے ہیں۔ اسی طرح سیدنا سلیمان ان سے سرکش جنوں کو اپنے کاموں میں استعمال کرتے اور پھر ان کو باندھ دیا جاتا تھا۔ قرآنِ مجید نے زنجیروں میں باندھنے کے الفاظ ہمارے فہم کے اعتبار سے استعمال کیے ہیں۔ ہم جب کسی قیدی کو باندھتے ہیں تو بالعموم اسے زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں اس معاملے میں حقیقی صورت حال کیا تھی، اس کی حقیقت تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں ۔

قرآن کی اس آیت کا اصل مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ یہ سرکش جن حضرت سلیمان کے زمانے میں سرکشی کےلیے آزاد نہیں رہے تھے بلکہ ان کو قید کردیا گیا تھا۔یہی مفہوم رمضان میں شیاطین کو قید کردینے کا ہے کہ وہ سرکشی کے لیے آزاد نہیں رہتے۔ ان کے باندھے کی اصل نوعیت امور متاشبہات کی ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

٢۔ حضرت سلیمان کے دربار کا جو واقعہ آپ نے بیان کیا ہے اس میں قرآن مجید نے جوالفاظ استعمال کیے ہیں وہ ”علم من الکتاب ”کے ہیں اس کا لفظی ترجمعہ تو یہ ہوا کہ اس شخص کے پاس کتاب کا کوئی علم تھا ۔یہاں کتاب سے کیا مراد ہے؟ اس میں اہل علم کی مختلف آرا ہے ہمارے نزدیک اس میں وہ نقطہ نظر ٹھیک ہے جس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کتاب کا ایک مفہوم قانون کا ہے اور یہاں کتاب کے علم سے مراد اللہ تعالیٰ کے قوانین میں سے کسی قانون قانون کا علم ہے جو اس کائنات میں جاری و ساری ہے ۔

اس کی حقیقی نوعیت کیا ہے یہ تو ہم متعین نہیں کرسکتے لیکن جدید سائنس نے جوبعض قوانین قدرت دریافت کیے ہیں ان سے انہیں ہم سمجھ سکتے ہیں مثال کے طور پر آج کی سائنس نے جو کائناتی قانون دریافت کر لیا ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے سائنس دان کسی چیز کو تو دوسری جگہ منتقل نہیں کر پائے لیکن اس کی آواز، تصویر اور کسی جگہ ہونے والے تمام معاملات اسی وقت براہ راست دوسری جگہ دکھانا بظاہر ایک معمولی بات بن گیا ہے ۔یہ خود اپنی ذات میں کسی معجزے سے کم چیز نہیں۔ مگر ہوتی ا ن معلوم طبعی قوانین کی بنیا دپر ہے جو کائنات میں جاری و ساری ہیں اور انھیں سائنسدانوں نے دریافت کرکے عام علم اور تعلیم کا حصہ بنادیا ہے۔ اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس شخص کے پاس بھی کوئی ایسا ہی علم ہوگا۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-11-19

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading