سوال
کیا یہ بات درست ہے کہ جو شخص کلمۂ توحید ” لا الٰہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ” کا ستر ہزار مرتبہ ورد کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے تمام گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے ؟ اور اگر وہ شخص اپنے اِس ورد کو کسی مُردے کے لیے ایصال ثواب کردے تو یہ اُس میت کے لیے باعث مغفرت بن جاتا ہے ؟
جواب
دیکھیے ، یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ مذکورہ بالہ عمل اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک خالص دینی عمل ہے ۔ اور اعمالِ دینیہ کے باب میں یہ اُصول بالکل قطعی ہے کہ دینی نوعیت کے کسی بھی عمل کو اُس وقت تک کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ دین کے اصل مآخذ سے اُس کا استناد نہ ثابت کردیا جائے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب تک وہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل یا تقریر وتصویب سے ہم تک صحت کے ساتھ نہ پہنچے ۔ اللہ اور اُس کے رسول کی صحیح نسبت کے بغیر اِس طرح کا ہر عمل بالبداہت واضح ہے کہ ‘بدعت’ ہی قرار پائے گا ۔
ہمارے معاشرے میں مندرجہ بالہ ورد اور اِسی نوعیت کے دیگر اذکاد اور اُن کے فضائل چونکہ عملاً بہت ہی شایع وذایع ہیں ، اور عامہ الناس میں اُن کی دینی حیثیت بھی بالعموم مسلّم ہوا کرتی ہے ۔ چنانچہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ لوگوں کو اِس طرح کے ہر شایع وذایع دینی عمل کو کسی بھی جگہ سے اخذ کرنے سے نہ صرف یہ کہ متنبہ کیا جائے ، بلکہ اِس پہلو سے بھی اُن کی تربیت کی جائے کہ دین میں کوئی عمل کس طرح مشروع قرار پاتا اور کس اُصول پر اُسے غیر مشروع قرار دیا جاسکتا ہے ۔
کلمہ توحید کا اقرار ، اُس کی شہادت دین میں اپنی جگہ پر بڑی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ، تاہم مذکورہ بالہ سوال کے مطابق اِس کی فضیلت کو متصور کرتے ہوئے ایک خاص تعداد میں اِس کے ورد کرنے کو ہم جب تحقیق کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کلمۂ توحید کا بالخصوص ستر ہزار کی تعداد میں ورد کرنا اور اُس کی یہ فضیلت کہ اِس کے نتیجہ میں بندے کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی روایت کے ذریعے ، (خواہ وہ صحیح ہو یا ضعیف) کسی بھی درجے میں ثابت نہیں ہے ۔ چنانچہ دین کی رو سے اِس عمل کی کوئی حقیقت ہے ، نہ ہی اِس کے حوالے سے بیان کی گئی فضیلت کی ۔ اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اِسے مسلمانوں میں بیان ہی کرنا چاہیے ۔ اِس عمل کی مشروعیت جب دین میں اپنی اصل ہی میں ثابت نہیں ہے تو اِس کے بارے میں یہ تصور بھی بالکل بے معنی ہے کہ کسی میت کو اگر اِس کا ثواب ایصال کردیا جائے تو یہ اُس کے لیے باعث مغفرت ہوجاتا ہے ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اُس شخص کے بارے میں ، جو کلمۂ توحید کا ستر ہزار مرتبہ ورد کرکے اُسے ہدیۃً کسی مردے کو ایصال کرتا ہے ، آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا اِس کا ثواب اُس مردے کو پہنچے گا یا نہیں ؟
اِس پر امام صاحب نے جواب دیا :
” آدمی اِس طرح کلمۂ توحید کا ورد ستر ہزار مرتبہ کرے ، خواہ اِس سے کم یا زیادہ مرتبہ کرے ، اور پھر اُسے کسی مردے کو ہدیہ کردے۔ یہ عمل کسی صحیح یا ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔” (مجموع الفتاوی ،323/24)۔
احمد بن المقری التلمسانی نے اپنی کتاب “نفح الطیب من غصن الاندلس الرطیب” میں امام ابن حجر رحمہ اللہ سے بھی اِس عمل کے کسی حدیث سے ثابت ہونے کا انکار نقل کیا ہے ۔(55/2)
اِس باب میں محض ایک سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ کلمۂ توحید کے مذکورہ بالہ ورد کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استناد حاصل ہی نہیں ہے تو مسلمانوں میں یہ در اصل آیا کہاں سے ہے ؟ اِس کی تاریخ کیا ہے ؟
اِس پہلو سے جب ہم اِس سوال پر تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ در اصل مسلمانوں میں اِس عمل کا ماخذ بعض علماے تصوف کی کتب ہی ہیں ۔ چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ اِسے ابن العربی(المتوفی:638ھ) نے اپنی کتاب : “الفتوحات المکیۃ” میں اس طرح بیان کیا :
“اور میں تمہیں یہ وصیت کرتا ہوں کہ تم اِس بات پر قائم رہو کہ تم نے اپنی گردن کی آگ سے خلاصی کے بدلے اپنے نفس کو اللہ کے حوالے کردیا ہے ، چنانچہ اِس کے لیے تم ستر ہزار مرتبہ “لا الہ الا اللہ” کہو ۔ اِس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہاری یا اُس شخص کی گردن کو آگ سے خلاصی دیں گے جس کی طرف سے تم اِس کا ورد کرو گے ، یہ بات ایک حدیث نبوی میں وارد ہوئی ہے ۔”
ابن العربی کے بعد صوفیا کی ایک بڑی تعداد اِس پر عمل پیرا ہوئی ۔
تاہم ، محقق راے یہی ہے کہ حدیث کے تمام مستند مآخذ اِس طرح کی کسی بھی روایت سے بالکل خالی ہیں اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ، امام ابن تیمیہ کی بھی یہی راے ہے ۔ محض کتب تصوف سے ماخوذ اِس طرح کے کسی ذکر وورد کو دین اسلام میں مشروع قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
مجیب: Muhammad Amir Gazdar
اشاعت اول: 2015-10-18