شرک کی دلیل

38

سوال

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ شرک کی کوئی دلیل نہیں اتاری گئی، یہ بات ہندوؤں کی کتاب گیتا اور دیگر کتابوں ، وحدت الوجود کے تناظر میں خدا کو ماننے والوں پر کس طرح لاگو ہوتی ہے؟ کیا صرف عقلی دلیل کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ـ”ما لم ينزل به سلطٰناً”؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیے۔

جواب

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی کسی کتاب میں شرک کے حق میں کوئی بات کبھی نہیں کہی گئی۔ یہ بات نہ صرف قرآن مجید کے بارے میں درست ہے بلکہ اُن دیگر مذہبی صحیفوں کے بارے میں بھی ٹھیک ہے جو قرآن سے قبل دیگر انبیا خاص کر انبیاے بنی اسرائیل پر اتارے گئے۔ تورات و انجیل اور دیگر صحفِ سماوی جن کا منزل من اللہ ہونا قرآن میں بیان ہوا ہے، شرک کی تردید ان کا بنیادی موضوع رہا ہے۔ اس لیے شرک کے حق میں کوئی استدلال ان میں نہیں پایا جاتا۔ اس حقیقت کو قرآن نے بار بار بیان کیا ہے۔

جہاں تک ہندوؤں کی مقدس مذہبی کتابوں کا تعلق ہے جن میں سے بعض کا ذکر آپ نے فرمایا ، ان کے بارے میں پہلی بات یہ جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید انہیں بحیثیت الہامی صحائف کے پیش نہیں کرتا۔ دوسری بات اس حوالے سے یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جن کتابوں کا آپ نے حوالہ دیا ہے، ان کی بالعموم یہ تاریخی حیثیت بیان بھی نہیں کی جاتی کہ وہ آسمانی کتابیں ہیں۔ مزید برآں یہ کہ یہ کتابیں زمانہ قبل از تاریخ میں ایک طویل عرصے تک زبانی روایت کے طور پر آگے منتقل ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے اگر کسی وجہ سے اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ یہ الہامی کتب ہی تھیں تب بھی اس بات کا بہت زیادہ امکان موجود ہے کہ ان کتابوں میں بہت کچھ تبدیلی اور اضافے ہوچکے ہوں۔اس لیے اگر ان کتابوں میں کچھ باتیں مشرکانہ نوعیت کی پائی بھی جاتی ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن مجید کی بات غلط ہے۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-11-22

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading