سوال
میں نے اپنے دوست کو اس کی بیٹی کی شادی کے موقعہ پر دو لاکھ روپے دو سال کے لئے ادھار دیے۔ اب دو سال بعد میرا دوست مجھے صرف اصل رقم واپس کر رہا ہے جبکہ اس عرصہ میں روپے کی قیمت بہت گر چکی ہے۔ کیا میں اپنے دوست سے یا مطالبہ کر سکتا ہوں کہ افراط زر کی وجہ سے جو نقصان ہو ہے وہ بھی ادا کرے۔
میں کاروبار کرتا ہوں۔ میرا کام اللہ کے فضل سے بہت اچھا جا رہا ہے۔ اس سے میری ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں میں اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کے لئے قرض لینا چاہتا ہوں۔ کیا میں قرض دینے والے شخص کو ایک متعین رقم نفع کے طور پر دے سکتا ہوں؟ کیا یہ تعیین وقت کی وجہ سے سود شمار ہو گا؟
جواب
۱)قرضے پر مہنگائی کی وجہ سے اصل رقم میں واقع ہوجانے والی کمی کو لینا اصلاً غلط نہیں ہے۔مگر اس کا طریقہ یہ تھا کہ آپ قرض دیتے وقت اس رقم کو کسی اور چیز مثلا مہنگائی کی شرح، سونے یا فارن کرنسی سے متعلق کرلیتے اور اس کے حساب سے رقم وصول کرلیتے ۔ اب اصل معاہدے میں اگر یہ بات شامل نہیں تھی تو پھر یہ مقروض کی صواب دید پر مبنی ہے۔ وہ آپ کا نقصان پورا کردیں گے تو احسان کا بدلہ احسان سے دے کر ماجود ہوں گے۔ ورنہ آپ معاف کردیجیے اور اﷲ سے اجر کی توقع رکھیے۔
۲)قرض پر اضافی رقم دینا سود ہی ہوتا ہے۔ البتہ سوال اس صورت میں یہ ہے کہ سود آپ لے نہیں رہے بلکہ دے رہے ہیں۔استاذ گرامی کے نزدیک سود لینے کو قرآن مجید میں ممنوع ٹھہرایا گیا ہے۔ سود دینے والا خود مجبور ہوتا ہے۔ اسے بلاسود ی قرض ملے تو وہ کیوں سود پر قرض لے گا؟ویسے بہتر یہ تھا کہ پہلے سوال کے اصول پر آپ قرض دینے والے سے مہنگائی کی شرح کے حساب سے کوئی معاہدہ کرلیتے تو پھر یہ سود نہیں رہتا۔ کیونکہ آج کل کے دور میں روپیہ جس تیزی سے بے وقعت ہوتا ہے قرض خواہ کو کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-10-27