زیارتِ مدینہ اور مسجد نبوی میں چالیس نمازیں

14

سوال

سفرِ حج وعمرہ میں زیارتِ مدینہ منورہ کی دینی حیثیت کیا ہے ؟ کیا مسجدِ نبوی کی زیارت کرنا حج وعمرہ کی عبادات سے بھی کوئی تعلق رکھتا ہے ؟ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حاجی یا معتمر کو چاہیے کہ وہ مدینہ منورہ مین اپنے قیام کے دوران مین مسجدِ نبوی میں کم سے کم چالیس فرض نمازیں بغیر کسی ناغے کے جماعت کے ساتھ پڑھے تو اِس عمل کی دین میں بڑی فضیلت ہے ۔ حدیث وسنت کی رو سے کیا یہ بات درست ہے ؟

جواب

دیکھیے، دور دراز سے سفر کر کے بیت الحرام میں آنے والے ایک مسلمان کی یہ فطری خواہش ہوا کرتی ہے کہ وہ مزید چند گھنٹوں کا سفر کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دار الہجرت اور آخری مسکن،مدینہ منورہ اور اس میں آپ کی مسجد، مسجدِ نبوی کی زیارت بھی کرلے۔چنانچہ وہ اِس مقصد سے اور اپنی اِس پاکیزہ خواہش کے ساتھ مدینہ منورہ کا قصد کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اِس مقصد کو حاصل کرنا ایک مسلمان کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے ۔ حج وعمرہ کے سفر میں زیارتِ مدینہ ومسجد نبوی کی حیثیت بس یہی ہے ۔ چنانچہ واضح رہے کہ زیارتِ مدینہ کا،جیساکہ عامۃ الناس خیال کرتے ہیں،حج وعمرہ کے مناسک سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ حج یا عمرہ کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ دین وشریعت کی رو سے حج وعمرہ،اِس کے بغیر بھی ہر لحاظ سے مکمل ہوتے ہیں اور اُن میں کسی اعتبار سے کوئی نقص نہیں رہ جاتا ۔

اب جب زیارتِ مدینہ کی حیثیت یہی ہے تو بالبداہت واضح ہے کہ آدمی جتنا چاہے حرمِ نبوی میں رہے؛جتنی نمازیں چاہے مسجد نبوی میں ادا کرے اور جب چاہے وہاں سے رخصت ہوجائے۔ اِس پر کسی اعتبار سے اُس پر کوئی پابندی ہے،نہ دین میں کوئی متعین اجر وفضیلت ہی اِس باب میں ثابت ہے ۔

اِس حوالے سے عام طور پر جس روایت کی شہرت ہوگئی ہے اور جس کی طرف سائل نے بھی یہاں اشارہ کیا ہے،اُس کی تفصیل حسب ذیل ہے :سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جس شخص نے میری مسجد میں بغیر کسی ناغے کے چالیس (فرض) نمازیں مسلسل پڑھیں اُس کے لیے دوزخ کی آگ سے چھٹکارہ،عذاب سے نجات اور نفاق سے براءت لکھ دی جاتی ہے ۔ (احمد، رقم: 12605۔ طبرانی فی الاوسط،رقم:5444)

اِس روایت کے بارے میں اصلاً یہ بات جان لینی چاہیے کہ تحقیقِ سند کی رو سے علماے محدثین کے نزدیک یہ ایک ضعیف اور ناقابل حجت روایت ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، البانی،رقم:364 ۔ مسند احمد بتحقیق الشیخ شعیب ارناؤوط،رقم: 12605) چنانچہ اِس سے کسی بھی دینی عمل کے لیے کوئی استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔

اِس روایت کو “صحیح” سمجھنا اور اِس پر عمل کرنا تو در کنار،اِس طرح کی کمزور روایتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اور آپ کے فرمان کی حیثیت سے بیان کرنا بھی قطعاً مناسب نہیں ہے ۔ یہ روایت چونکہ صحت کے ساتھ ثابت ہی نہیں ہے،چنانچہ اِس کی بنیاد پر پیش کیے جانے والے عمل اور اُس کی فضیلت کی بھی ظاہر ہے کہ دین کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی ۔ زیارت مدینہ سے متعلق یہ منجملہ اصلاح طلب اُمور ہے ۔ چنانچہ اِس کی اصلاح کرلینی چاہیے ۔

مجیب: Muhammad Amir Gazdar

اشاعت اول: 2015-10-17

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading