سوال
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ابراہیم علیہ
السلام کی اولاد کو ان کے والد کے طریقہ پر عمل کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے
جس کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں کمی یا اضافہ کے ساتھ ہمارے
لئے سنت جاری کی۔ حدیث ، وحی ، سنت اور دیگر اصطلاحات قرآن نے اپنے لئے
استعمال کی ہیں تو پھر ہم حدیث کی کتابوں کو کوئی اور نام کیوں نہیں دیتے۔
کیا قرآن ہمارے لئے کافی نہیں ہے؟
جواب
۱) قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے سورہ النحل(16) آیت 123 میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کوواضح طور پر حکم دیا ہے کہ وہ ملت ابراہیمی کی پیروی کریں۔
۲) آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض ہے، حدیث اور وحی کے الفاظ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کے لیے استعمال کیے ہیں۔ جب کہ سنت کا لفط اپنے طریقے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جہاں تک حدیث کی کتابوں کا سوال ہے تو یہ بات یاد رکھیے کہ علم حدیث میں حدیث کا لفظ ایک خاص مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ حدیث کا لغوی مطلب بات ہوتاہے ، لیکن علم حدیث میں یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول و فعل و تقریر وتصویب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہی چیزوں پر مشتمل مجموعوں کو حدیث کی کتابیں کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض دوسری اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جیسے بعض کتابوں کو سنن کہاجاتا ہے، اور بعض کوجامع۔ سنن کا مطلب وہ مجموعہ حدیث ہوتا ہے جس میں احادیث فقہی ابواب کے اصول پر مرتب کی جائیں اور انہیں امور سے متعلق احادیث جمع کی جائیں۔جبکہ الجامع حدیث کی وہ کتاب ہوتی ہے جس میں فقہ کے علاوہ دیگر امور کے حوالے سے ہر طرح کی احادیث جمع کی جائیں۔
۳) آپ کی تیسری بات کا جواب یہ ہے کہ دین کا بنیادی ماخذ اب صرف رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پاک ہے۔ آپ سے یہ دین ہمیں نہ صرف قرآن مجید سے ملاہے بلکہ سنت سے بھی ملاہے۔ ان دونوں کے بغیر دین پر عمل کرناممکن نہیں۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-07