سوال
میرے ذہن میں چند سوال ہیں۔
۱۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسالت کے خاص منصب پر فائز تھے۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں وفات دینے کے بعد “کتب الله لاغلبن انا و رسلی” کے تحت اپنی طرف اٹھا لیا۔ ان کے غالب ہونے کا پھر کیا مطلب ہوا؟ میرے علم کے مطابق تو مسیحیوں کا یہودیوں پر غلبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تین سو سال بعد ہوا تھا۔ مجھے ایک قادیانی نے بتایا کہ ان کے رسول کا اس کے منکرین پر غلبہ ۳۰۰ سال بعد ممکن ہے۔ اس کی وضاحت بھی فرمائیں۔ ‘سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا’ اس طرح کا جملہ آپ نے مرزا صاحب کی تحریروں میں پڑھا ہو گا، اور مخلتف لوگوں پر عذاب کے قصے بھی قادیانی کتب میں مل جاتے ہیں۔ قادیانیوں کی ان باتوں کی کیا حیثیت اور حقیقت ہے؟ برائے مہربانی قرآن اور تاریخ کی روشنی میں تفصیلی وضاحت فرمائیں۔
جواب
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ان کی قوم پر غلبے کا معاملہ کیا ہوا، اس کا ذکر قرآنِ مجید نے دو مقامات پر بہت صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ ایک مقام سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 55 ہے۔ اور دوسرا مقام سورہ صف کی آیت نمبر 14 ہے۔ ان دونوں مقامات کا ترجمہ درج ذیل ہے:
”اور تمھیں اپنی طرف اٹھالوں گااور تمھیں کافروں (کی صحبت) سے پاک کردوں گا۔ اور جو لوگ تمھاری پیروی کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق (و غالب) رکھوں گا۔ پھر تم سب میرے پاس لوٹ کر آؤ گے تو جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے اس دن تم میں ان کا فیصلہ کردوں گا۔”، (آلِ عمران:55)
”مؤمنو! خدا کے مددگار ہوجاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ (بھلا) کون ہیں جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرے مددگار ہوں۔ حواریوں نے کہا کہ ہم خدا کے مددگار ہیں۔ تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور ایک گروہ کافر رہا۔ آخر الامر ہم نے ایمان لانے والوں کو اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد دی اور وہ غالب ہوگئے۔”، (صف:14)
ان میں سے پہلی آیت میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ کے معاملے میں ان کے مخالفین پر ان کے غلبے کی شکل کیا ہوگی۔ وہ شکل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو یہود کے مکر اور ان کی سازشوں سے پاک اور محفوظ رکھ کر اپنی طرف اٹھالیا۔ یوں وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جبکہ یہ طے کردیا گیا کہ ان کے ماننے والے ان کے کفر کرنے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔
سورہ صف کی آیت 14 اس غلط فہمی کا ازالہ کررہی ہے کہ حضرت عیسیٰ کے ماننے والوں کو ان کے کفار پر یہ غلبہ 300 سال بعد ملا۔ یہ آیت تو یہ بتارہی ہے کہ سیدنا عیسیٰ کے ماننے والے اور ان کا انکار کرنے والے دونوں ان کے معاصر بنی اسرائیل یعنی یہود کے دو گروہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والے یہودیوں کو منکر یہودیوں (بنی اسرائیل) پر غلبہ عطا کردیا۔ اس آیت میں یہ بات بالکل واضح ہے یہ غلبہ ان کے براہِ راست ایمان لانے والے یعنی معاصر اہلِ ایمان کو ان کے معاصر اہلِ کفر پر دیا گیا تھا۔
یہ محض ایک غلط فہمی ہے کہ عیسائیوں کو یہود پر غلبہ 300 سال بعد حاصل ہوا۔ 300 والی بات یہود کے بارے میںنہیں بلکہ بت پرست روموں کے حوالے سے درست ہے۔ اصل تاریخی حقیقت یہ ہے کہ رومن سلطنت میں عیسائیوں کو غلبہ 313 عیسوی میں اس وقت ہوا جب رومی حکمران قسطنطینِ اعظم نے عیسائیت قبول کرلی اور یوں عیسائیت سلطنت کا سرکاری مذہب بن کر دنیا پر غالب ہوگیا۔ جہاں تک حضرت عیسیٰ کے کفار یہودیوں کا تعلق ہے تو ان پر رفعِ مسیح کے کچھ عرصے بعد ہی زبردست عذاب آیا۔ اس کی شکل یہ تھی کہ سن 70 عیسوی میں رومن جنرل ٹائیٹس نے یروشلم پر حملہ کرکے یہودیوں کو تہہ تیغ کردیا۔ اس کے بعد سے لے کر 1917 تک جب کہ موجودہ اسرائیلی سلطنت قائم ہوئی، یہود ہر جگہ مغلوب ہی رہے۔اوراِس وقت بھی ان کی ریاست تمام تر مسیحی ریاستوں برطانیہ امریکہ وغیرہ کی طفیلی ہے۔
جبکہ حضرت عیسی کے زمانے میں بھی صورتحال یہ تھی کہ ان پر ایمان لانے والے تیزی سے بڑھتے جارہے تھے۔اور ان کے رفع کے بعد تو ان پر ایمان لانے والوں کی تعداد انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتی گئی جس کے نتیجے میں ہر اس جگہ پر جہاں وہ موجود تھے، ان کا اثر و نفوذ بڑھنے لگا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ باعزت اور طاقتور ہوتے چلے گئے جبکہ دوسری طرف یہود دنیا بھر میں ہر جگہ خراب و خوار ہوتے رہے۔چنانچہ تاریخی حقائق قرآنِ کریم کے بیان کی تائید کرتے ہیں کہ مسیحیوں کو یہودیوں پر ابتدائی زمانے ہی سے غلبہ حاصل ہوگیا تھا۔ 300 سال والی غلط فہمی کا تعلق یہود سے نہیں بلکہ رومن ایمپائر سے ہے۔
آپ کے دوسرے اور تیسرے سوال کے جواب میں ہم کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے قادیانیوں سے متعلق اپنا نقطہ نظر اصولی طور پر بیان کردیتے ہیں۔
قادیانی حضرات مرزا غلام احمد قاديانی کو ايک نبی تسليم کرتے ہيں۔ جہاں تک دين اسلام کا تعلق ہے اس کی بنيادی کتاب قرآن مجيد نے اس بات کو باصراحت بيان کيا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ عليہ وسلم اللہ تعالی کے آخری بنی اورسول ہيں اور آپ کے بعد کسی اور نبی يا رسول کا آنا ممکن نہيں۔ اس بات کو قرآن کريم نے اس طرح بيان کيا ہے۔
”محمد تمھارے مردوں ميں سے کسی کے باپ نہيں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبيين ہيں، اور اللہ ہر چيز کا علم رکھنے والا ہے۔”،(احزاب40:33)
عربی زبان ميں خاتَم کا مطلب ‘مہر’ہوتا ہے۔ گويا خاتَم النبيين کا مطلب ہو اکہ وہ نبيوں کی مہر ہيں۔ دنيا مہر کے دو ہی استعمالات سے واقف ہے۔ پہلا جب کسی چيز کو فيصلہ کن طور پر بند کرنا مقصود ہو تو اس پر مہر لگادی جاتی ہے۔ انگريزی ميں اسے ‘Seal’ اور اردو ميں خاتمے کی مہر سے تعبير کيا جاتا ہے۔ مہر کا دوسرا استعمال کسی چيز کی تصديق کرنے کے حوالے سے عام ہے۔اسے انگريزی ميں Certify يا Authenticate کرنا کہتے ہيں اور اردو ميں مہر تصديق۔
ان دونوں معنوں کی روشنی ميں خاتم النبيين کو ديکھ ليں۔ پہلے کا مطلب يہ ہوگا کہ محمد مصطفی صلی اللہ عليه وسلم اللہ تعالی کے آخری بنی ہيں جن کے بعد نبوت کا سلسلہ تمام ہوگيا ہے اور مزيد کسی اور نبی کو نہيں آنا۔ دوسرا مطلب يہ ہے کہ وہ نبيوں کی مہر ہيں۔ يعنی جس ہستی کی نبوت کی آپ تصديق کرديں گے لوگ انہيں پر ايمان لانے کے مکلف ہيں۔ سب جانتے ہيں کہ حضور نے اپنے سے پہلے کے بہت سے نبيوں کی نام بنام خبر دی اور ان کی تصديق کی ہے، مگر اپنے بعد کسی نبی کے آنے کے بارے ميں ہميں کوئی اطلاع نہيں دی۔
قرآن پاک کی يہ آيت نہ بھی ہوتی تب بھی قرآن کريم تفصيل سے بيان کرتا ہے کہ قيامت کے دن نجات کا پيمانہ کيا ہوگا۔ جن چيزوں کو ماننا نجات کے ليے ضروری ہے، قرآن کريم انہيں کھل کر اور واضح طور پر بيان کرتاہے۔ مگر ہم ديکھتے ہيں کہ ان ميں کسی آنے والے نبی پر ايمان شامل نہيں۔ قرآن کريم کی کوئی آيت ايسی نہيں جس ميں ايک نئے نبی پر ايمان کو ديگر ماننے والی چيزوں کی طرح بيان کيا گيا ہو۔ اس ليے جو شخص قرآن کو اللہ کا کلام مانتا ہے، وہ اگر حضور کے بعد کسی بنی پر ايمان کا دعویٰ کرتا يا اسے ماننے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس سے پہلے ہم يہ دريافت کريں گے کہ آيا قرآن نے کسی آنے والے نبی کے بارے ميں کوئی بيان کہيں ديا ہے يا نہيں۔ يہ بات ذہن ميں رہے کہ قرآن ايمانيا ت کی کتاب اورنبوت ايمان کا معاملہ ہے۔ ايک آنے والی نبی کی خبر جس پر کروڑوں لوگوں کی نجات کا انحصار ہو،قرآن کريم ميں اپناايک مکمل اورصريح بيان چاہتی ہے۔ کيا قرآن کريم ميں ايسا کوئی بيان موجود ہے؟ اگر اس سوال کا جواب نفی ميں ہے اور بلاشبہ نفی ميں ہے تو پھر کسی نئے نبی کی نبوت پر ايمان کاکوئی سوال پيدا نہيں ہوسکتا۔ اس پر مستزاد يہ کہ قرآن کريم نے ختم نبوت کے بارے ميں ايک واضح اور صريح بيان ديا ہے جو اس سے قبل کسی الہامی کتاب ميں کہيں نہيں ملتا۔ يہ اس بات کا بين ثبوت ہے کہ نبوت ختم ہوچکی ہے۔”
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-22