سوال
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کے ان احادیث کے بارے میں آپ کی راے کیا ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں؟ مثلا صحیح بخاری باب الانبیاء حدیث رقم 3448 صراحتا حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی اطلاع دے رہی ہے-
جواب
جن احاديث میں یہ بات بیان کی گئی ہي کہ قيامت سے قبل حضرت عيسیٰ اس دنيا ميں دوبارہ تشريف لائيں گے ان کے حوالے سے استاذ گرامی جاويد احمد غامدی کی رائے درج ذیل ہے:
نزول مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے، لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیے تو وہ بھی محل نظر ہیں۔
اولاً، اِس لیے کہ مسیح علیہ السلام کی شخصیت قرآن مجید میں کئی پہلووں سے زیر بحث آئی ہے۔ اُن کی دعوت اور شخصیت پر قرآن نے جگہ جگہ تبصرہ کیا ہے۔ روز قیامت کی ہلچل بھی قرآن کا خاص موضوع ہے۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقع بیان کے باوجود اِس واقعے کی طرف کوئی ادنیٰ اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اِس خاموشی پر مطمئن ہو سکتے ہیں؟ اِسے باور کرنا آسان نہیں ہے۔
ثانیاً، اِس لیے کہ سورئہ مائدہ میں قرآن نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے جو قیامت کے دن ہو گا۔ اُس میں اللہ تعالیٰ اُن سے نصاریٰ کی اصل گمراہی کے بارے میں پوچھیں گے کہ کیا تم نے یہ تعلیم اِنھیں دی تھی کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بناؤ۔ اِس کے جواب میں وہ دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ میں نے تو اِن سے وہی بات کہی جس کا آپ نے حکم دیا تھا اور جب تک میں اِن کے اندر موجود رہا، اُس وقت تک دیکھتا رہا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ لیکن جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو میں نہیں جانتا کہ اِنھوں نے کیا بنایا اور کیا بگاڑا ہے۔ اِس کے بعد تو آپ ہی اِن کے نگران رہے ہیں۔ اِس میں دیکھ لیجیے، مسیح علیہ السلام اگر ایک مرتبہ پھر دنیا میں آ چکے ہیں تو یہ آخر ی جملہ کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ اِس کے بعد تو اُنھیں کہنا چاہیے کہ میں اِن کی گمراہی کو اچھی طرح جانتا ہوں اور ابھی کچھ دیر پہلے اِنھیں اُس پر متنبہ کر کے آیا ہوں۔ فرمایا ہے:
مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلاَّ مَآ اَمَرْتَنِیْ بِهِۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ، وَکُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ، وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَهِيْدٌ.(المائده5: 117)
میں نے تو اِن سے وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی، اور میں اِ ن پر گواہ رہا، جب تک میں اِن کے اندر موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اِن پر تو ہی نگران رہا ہے اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔
ثالثاً، اِس لیے کہ سورہ آل عمران کی ایک آیت میں قرآن نے مسیح علیہ السلام کے بارے میں قیامت تک کا لائحہ عمل بیان فرمایا ہے۔ یہ موقع تھا کہ قیامت تک کے الفاظ کی صراحت کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ وہ چیزیں بیان کر رہے تھے جو اُن کے اور اُن کے پیرووں کے ساتھ ہونے والی ہیں تو یہ بھی بیان کر دیتے کہ قیامت سے پہلے میں ایک مرتبہ پھر تجھے دنیا میں بھیجنے والا ہوں۔ مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا۔ سیدنا مسیح کو آنا ہے تو یہ خاموشی کیوں ہے؟ اِس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ آیت یہ ہے:
اِنِّیْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَیَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْۤا اِلٰی يَوْمِ الْقِيٰمَةِ، ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَيْنَکُمْ فِيْمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ. (3: 55)
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور (تیرے) اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔ پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے۔ سو اُس وقت میں تمھارے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-12-04