سوال
جاوید احمد غامدی صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا: اب انسان اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ ایک عالمی حکومت کا خواب دیکھے۔ اس بات نے میرے ذہن میں بہت الجھن پیدا کر دی ہے ۔ میں اس بات کو پوری طرح سمجھنا چاہتا ہوں۔ وضاحت فرماے؟
میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ چند روایات نقل کرتے ہوئے یہ نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں کہ اگر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی چند نفوس کو لے کر ساٹھ ہزار پر مشتمل ایک طاقتور فوج کو شکست دے سکتے ہیں تو پھر اس قرآنی آیت کا کیا مطلب ہے جو غامدی صاحب کے مطابق اس بات کو لازم قرار دیتی ہے کہ مسلمانوں کو اس وقت تک جنگ نہیں کرنا چاہیے جب تک ان کی حربی قوت دشمن کی حربی قوت کے کم از کم نصف برابر نہ ہو؟
جواب
آپ کے سوالات کے جواب حسب ذیل ہیں۔
١۔ آپ نے جاوید صاحب کی جس وڈیو کا حوالہ دیا ہے اس میں جاوید صاحب کا جملہ یہ ہے:
”میرا احساس یہ ہے کہ اب بھی دنیا کو یہ خواب دیکھنے کا حق ہے کہ ایک عالمی حکومت کی طرف ہم بڑھیں، جس میں انسان کی فلاح، انسان کی رفاہیت، غربت کے خلاف جنگ، جہالت کے خلاف جنگ ہمارا مطمح نظر ہو”۔
اس جملے سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ جاوید صاحب کا مدعا یہ ہے کہ انسانیت اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود کچھ ایسی اقدار پر متفق ہوجائے، جو عالمی نوعیت کی ہوں اور جن کی بنیاد پر انسان کی عمومی فلاح و بہبود کے کام کرنا ممکن ہوجائے۔ جس سیاق میں جاوید صاحب بات کررہے ہیں اس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس حکومت سے مراد کوئی سیاسی حکومت ہرگز نہیں ہے، بلکہ سرمايہ دارانہ نظام کی خامیوں کو مارکس نے جس طرح متوازن بنانے کی کوشش کی ہے، اس کے حوالے سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی مرادانسانیت کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر ایک متوازن نظام کی طرف پیش قدمی ہے جس کی بنیادی اساس انسانیت کی فلاح ہو۔
٢۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ رواج ہے کہ قرآن کریم کو صحیح، ضعیف اور موضوع روایات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسی نوعیت کے سوالات پیدا ہوجاتے ہیں جن میں سے ایک کاذکر، حضرت خالد بن ولید کے حوالے سے ایک تاریخی روایت نقل کرکے آپ نے کیا ہے۔ جب یہ روایات قرآنی بیان کی تائید نہیں کرتیں، تو لوگ ایک نوعیت کے کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن فہمی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ روایات و آثار کو قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے۔
اس اصولی بات کے بعد اب آئیے اس روایت کی طرف جسے آپ نے نقل کیا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک تاریخی روایت ہے۔ اور اس کا اپنا متن ہی پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات سے تو سب واقف ہیں کہ جنگِ موتہ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً تین ہزار تھی۔ جبکہ رومی لشکر کی تعداد کا اندازہ ایک لاکھ تک لگایا گیا ہے۔ ایک اور تینتیس کے اس تناسب میں حضرت خالد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ سمجھا گیا کہ وہ اپنے لشکر کو بچا کر کامیابی سے واپس مدینہ لے آئے۔ جبکہ جو تناسب آپ بتا رہے ہیں۔ وہ ایک اور چھ ہزار کا ہے۔ یہ اگر فتح کے حصول کے لیے کوئی کافی تناسب ہوتا تو جنگ موتہ میں وہ صورتحال پیش نہ آتی جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں کے تین عظیم سپہ سالاروں کی شہادت کے بعد حضرت خالد اس طریقے سے پسپا ہوئے کہ دشمن کو تعاقب کا حوصلہ تک نہ ہوسکا اور اس کے دل پر مسلمانوں کی دہشت چھاگئی۔یہی ان کا اصل کارنامہ تھا جس پر وہ سیف اللہ کے عظیم خطاب کے حقدار ٹھہرے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک اور چھ ہزار کے تناسب سے دشمن پر فتح حاصل کرنے کی بات نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ عقل عام اور دیگر مصدقہ تاریخی روایات کے بھی خلاف ہے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-24