حکومت کا زبردستی زمین ہتھیانا

22

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کے مطابق کوئی ریاست ایسا قانون بنا سکتی ہے جس کے مطابق وہ کسی آدمی سے اس کی ضرورت سے زیادہ زمین اگر اس کے پاس ہو تو وہ اس سے لے کر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دے؟ یا ایسا قانون کسی اسلامی ریاست میں نہیں لگایا جا سکتا؟ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر نکاح کے وقت لڑکا سنی اور لڑکی شیعہ فرقے سے تعلق رکھتی ہو اور اس بات پر بحث ہو جائے کہ سنی امام نکاح پڑھائے گا یا شیعہ امام تو ایسی صورت حال میں بہتریں حل کیا ہو گا؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔

جواب

آپ کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں:

١۔ جو مال کسی شخص نے جائز طریقے سے حاصل کیا ہو اس کی حرمت ویسی ہی ہے جیسے کے اس شخص کی جان یا آبرو کی حرمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں چیزوں کی حرمت کو ایک ہی جگہ پر اس طرح بیان فرمایا ہے:

”تمہارے (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجہ) اور اس شہر (مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچادی؟ صحابہ نے (بیک آواز) عرض کیا: جی ہاں۔”، مسلم، رقم:2950)

اسی طرح ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واضح کی ہے کہ لوگوں کے اموال پر جو قانونی حق دین نے خود عائد کیا ہے یعنی زکوٰۃ وغےرہ اس کے علاوہ حکومت ان سے کچھ اور نہیں لے سکتی:

”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں،یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ یہ شرائط تسلیم کر لیں تو اُن کی جانیں اور اُن کے مال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے،اِلّایہ کہ وہ اِن سے متعلق کسی حق کے تحت اِس سے محروم کر دیے جائیں۔ رہا اُن کا حساب تو وہ اللہ کے ذمے ہے ۔”، (مسلم، رقم:129)

یہ روایات اصل میں قرآن حکیم کے اس حکم کی وضاحت ہیں جو سورہ توبہ میں اس طرح بیان ہوا ہے:

”پھر اگر وہ توبہ کرلیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اُن کی راہ چھوڑدو۔”، (التوبہ5:9)

اس آیت کے حوالے سے استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:

”سورہ توبہ میں یہ آیت مشرکین عرب کے سامنے اُن شرائط کی وضاحت کے لیے آئی ہے جنھیں پورا کر دینے کے بعد وہ مسلمانوں کی حیثیت سے اُن کی ریاست کے شہری بن سکتے تھے۔ اِس میں ‘فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ’ (اُن کی راہ چھوڑ دو) کے الفاظ، اگر غور کیجیے تو پوری صراحت کے ساتھ اِس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ آیت میں بیان کیے گئے شرائط پوری کرنے کے بعد اگر وہ ریاست کی شہریت اختیار کرتے تو اِس ریاست کا نظام جس طرح اُن کی جان ،آبرو اور عقل و راے کے خلاف کوئی تعدی نہیں کر سکتا تھا، اِسی طرح اُن کے املاک ، جائدادوں اور اموال کے خلاف بھی کسی تعدی کا حق اُس کو حاصل نہیں تھا۔ وہ اگر اسلام کو مانتے، نماز پر قائم ہوجاتے اور زکوٰۃ دینے کے لیے تیار ہوتے تو عالم کے پروردگار کا حکم یہی تھا کہ اِس کے بعد اُن کی راہ چھوڑ دی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان واجب الاذعان کی رو سے ایک مٹھی بھر گندم ، ایک بالشت زمین ،ایک پیسا ،ایک حبہ بھی ریاست اگر چاہتی تو اُن کے اموال میں سے زکوٰۃ لے لینے کے بعد بالجبر اُن سے نہیں لے سکتی تھی۔”، ( میزان، 501)

اسلام نے ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ زبردستی لوگوں کی جائیدادیں چھیننے کا طریقہ نہیں بلکہ لوگوں کو اس بات پر ابھارنے کا طریقہ ہے کہ جب ضرورت مند سامنے ہوں تو ان کے پاس ضرورت سے زائد جو کچھ ہو وہ ان پر خرچ کردیں۔ (بقرہ: 219)۔

٢۔ جو مسئلہ آپ نے بیان کیا ہے اس کا ایک ممکنہ حل جس میں دونوں فریقین کا اطمینان ہوسکتا ہے یہ ہے کہ نکاح دو دفعہ پڑھایا جائے۔ ایک دفعہ ایک شیعہ عالم نکاح پڑھائے اور ایک دفعہ ایک سنی عالم۔ یہی اس مسئلے کا قابل عمل حل ہے۔

اس جواب کے کسی پہلو کے حوالے سے اگر کوئی بات مزيد وضاحت طلب ہے توآپ بلا جھجک ہم سے رابطہ کريں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بات درست ہے اسے ہمارے دلوں ميں راسخ فرمادے اور ہماری غلطيوں کو معاف فرماکر صحيح بات کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے،آمين

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-12-16

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading