اللہ کا عذاب

14

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب کی جہاد کے پہلو سے جو
ایک وضاحت ہے میں اسے جہاں تک سمجھ پایا ہوں اس کے مطابق رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے اتمام حجت کر دینے کے بعد صحابہ کرامؓ کی تلواروں کے
ذریعے کفار پر وہ اللہ کا عذاب تھا جو کہ نافذ کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا
قرآن مجید میں یہ نہیں کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک
لوگوں میں موجود ہیں تب تک اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے۔ برائے مہربانی
تفصیلی وضاحت فرمائیں۔

جواب

قرآنِ کریم کی جس آیت(انفال 33) کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اُس میں بلاشبہ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفارِ مکہ کے درمیان تھے، اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دینے والا نہ تھا۔ اس بات کا ایک خاص محل ہے جو سیاق و سباق سے واضح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے دوران میں جب کفار کو ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کے جواب میں عذابِ الٰہی کی وعید کی جاتی تو وہ رسول اللہ کا مذاق اڑاتے ہوئے عذابِ الٰہی فوراًلانے کا مطالبہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب بھیجے جانے کا کفار کا یہی مطالبہ سورہئ انفال کی آیت 32 میں نقل ہوا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اگر یہ قرآن تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی دردناک عذاب بھیج دے۔ چنانچہ آیت 33 میں اس بات کا جواب دیا جارہا ہے کہ جنگِ بدر سے قبل اگر اللہ نے کفار کی گرفت نہیں کی تھی تو اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ رسول اللہ مکہ میں مقیم تھے اور قانونِ رسالت کا یہ قاعدہ ہے کہ جب تک رسول اپنی قوم میں موجود ہوتا ہے قوم پر عذاب نہیں آتا، بلکہ اتمامِ حجت کے بعد رسول کو ہجرت کا حکم ہوجاتا ہے اور پھر اس کے بعد عذاب آیا کرتا ہے۔ چنانچہ جب کفارِ مکہ پر اتمامِ حجت ہوگیا، رسول اللہ کو مدینے ہجرت کا حکم ہوگےا تو پھر جنگ بدر میں کفار کی قیادت پر صحابہ کرام کی تلواروں کے ذریعے عذاب آیا اور وہ گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے گئے۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-12-16

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading