مشرک کے پیچھے نماز

65

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ دور میں شرک کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ اگر پڑھی جا سکتی ہے تو قرآن کی ان آیات کا مفہوم کیا ہے جن میں ۱۸ انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ اگر ان انبیاء سے شرک سرزد ہو جاتا تو ان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے؟ ایک اور جگہ محمدﷺ کا خصوصاً ذکر کرتے ہوئے ان سے خطاب کیا گیا ہے کہ اگر تم نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا تو تمھارے تمام اعمال ضائع کر دیے جائیں گے۔ اعمال میں سب سے پہلے نماز آتی ہے تو اگر کسی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے تو کیا مقتدی کی نماز بھی ضائع ہو جائے گی جب کہ مقتدی کو معلوم ہو کہ امام کے عقیدے میں شرک واضح ہے؟ وہ قبر پرست ہو؟

جواب

اس میں کوئی شک نہیں کہ شرک ایک بدترین جرم ہے اور یہ واحد جرم ہے جس کےبارے میں یہ وعید موجود ہے کہ اس کی معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے:

”خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اُس کے سوا اور گناہ جس کوچاہے معاف کردے۔ اور جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اُس نے بڑا بہتان باندھا۔” )نساء48:4 )

آپ نے یہ بھی ٹھیک فرمایا ہے کہ شرک کے ارتکاب پرقرآن مجید میں حبط اعمال کی وعید موجود ہے۔ ہم آپ کو صرف یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ان ساری وعیدوں کا مصداق ہمارے نزدیک وہ لوگ تھے جن پر ان کے شرک کا شرک ہوناواضح کردیا گیا تھا۔ اور یہ کام کسی اور نے نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے سے کیا تھا۔ قرآن کے بیان کے مطابق یہ لوگ خود اپنے دین شرک پر کاربندہونے کے دعويدار تھے اور ان پر ان کے شرک کا شرک ہونا بالکل واضح تھا۔ اس کے برعکس آج کل جو لوگ مشرکانہ عقیدوں یا اعمال کا شکار ہورہے ہیں وہ اسے ہرگز شرک سمجھ کراختیار نہیں کرتے۔ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ ان پر اپنے عقیدے یا عمل کا شرک ہونا واضح نہ ہو۔ اس لیے ہماری راے میں ان کے ساتھ تعلقات بھی رکھنے چاہیے اور ان کے پیچھے نماز بھی پڑھ لینی چاہیے تاکہ ان پر ان کی غلطی واضح کرنے کا امکان موجودرہے۔ اگر ایسے لوگوں سے سماجی اور مذہبی تعلقات ختم کرلیے جائیں تو پھر ان پر ان کی غلطی واضح کرنے کا کیا راستہ باقی رہ جائے گا۔ البتہ صريح مشرکانہ اعمال کا ارتکاب اگرسامنے ہورہا ہو جيسے ايک شخص پہلے قبر کو سجدہ کرے اور پھر نماز کی امامت کے ليےکھڑا ہوجائے تو اس کے پيچھے نماز نہ پڑھنا ہی مناسب ہے۔

جہاں تک آپ کی آخری بات کا تعلق ہے کہ ہمارا یہ نقطہ نظر ان کے شرک کی تاویل کرکے انہیں رعایت دینا ہے، ہماری رائے ميں بات يوں نہيں۔شرک سے ہميں بھی اتنی ہی نفرت ہے جتنی کسی بندہ مومن کو ہوسکتی ہے۔ ہم صرف اصلاح کے پہلو سے يہ چاہتے ہيں کہ اہل ايمان شرک سے نفرت کريں، انسانوں سے نہيں۔ بلکہ وہ ان کی اصلاح کی کوشش نرمی اور محبت کے ساتھ کريں۔اس کے ليے روابط رکھنا ضروری ہے۔ کسی کے پيچھے نماز نہ پڑھنے کا معاشرتی مفہوم يہ ہے کہ آپ اسے مسلمان نہيں سمجھے۔ اس کے بعد وہ شخص آپ کی بات کيسے سنے گا۔ پھر عملی پہلو سے بھی يہ مسئلہ موجود ہے کہ کس پر بات واضح ہوئی ہے کس پر نہيں، کسی عام آدمی کو آسانی سے معلوم نہيں ہوسکتا۔ مزيد براں يہ کہ قرآن مجید ميں شرک کی بعض ايسی اقسام بيان ہوئی ہيں، جن کے متعلق کوئی فيصلہ دينا اتنا مشکل ہے کہ ہر شخص کی رائے اس باب ميں جدا ہو گی۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

”بھلا تم نے اُس شخص کودیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنارکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)” جاثیہ23:45(

”کیا تم نے اُس شخص کو دیکھا جس نے خواہشِ نفس کومعبود بنارکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”(فرقان43:25)

ان دونوں آیات کےمطابق خواہشِ نفسانی کی پیروی بھی ایک نوعیت کا شرک ہے۔ ہم جاننا چاہیں گے کہ ہم میں سے کون سا شخص ہے جس نے اپنی زندگی میں یہ کام نہ کیا ہو؟ پھر تو اس صورت میں گویا کسی شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جاسکتی یا پھر نماز پڑھنے سے پہلے اس بات کی تحقیق لازم ہوگی کہ یہ شخص خواہشِ نفسانی کی پیروی تو نہیں کرتا۔پھر ہوسکتا کہ آپ کے نزديک ميں خواہش نفس کی پيروی کررہا ہوں اور ميرے نزديک آپ کررہے ہوں۔ مگر حقيقت کا فيصلہ کيسے ہوگا؟

اس جواب کے کسی پہلو کے حوالے سے اگر کوئی بات مزيدوضاحت طلب ہے توآپ بلا جھجک ہم سے رابطہ کريں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بات درست ہے اسے ہمارے دلوں ميں راسخ فرمادے اور ہماری غلطيوں کو معاف فرماکر صحيح بات کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے،آمين

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-12-29

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading