سوال
غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ احادیث سے عقیدے میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ لیکن وہ خود برہان میں اسلام اور تصوف کے تحت نبوت پہ بحث کرتے ہوئے الہام وغیرہ پر حدیث ہی کی بنا پر مہر لگاتے ہیں۔ اگر تو خاتم النبیین والی آیت کا مطلب الہام پہ بھی مہر ہے تو قران کی روشنی میں علمی تجزیہ کر کے واضح فرما دیجیے۔ بلکہ یہ سوال غامدی صاحب سے ہی پوچھ دیجیے کیوں کہ جہاں تک میرا ناقص ذہن کام کرتا ہے انہی کے مطابق انبیا کے علاوہ لوگوں پہ الہام وغیرہ کی مثالیں بھی قران میں ہمیں مل جاتی ہیں۔
جواب
آپ نے جاوید صاحب کی یہ بات تو ٹھیک لکھی ہے کہ حدیث سے دین میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا لیکن یہ بات ٹھیک نہیں لکھی کہ وہ حدیث کی بنا پر وحی و الہام پر مہر لگاتے ہیں۔ آپ نے ان کی جس عبارت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اصل میں یہ ہے:
”قرآن کی رو سے نبوت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اب نہ کسی کے لیے وحی و الہام اور مشاہدہ غیب کا کوئی امکان ہے اور نہ اِس بنا پر کوئی عصمت و حفاظت اب کسی کو حاصل ہوسکتی ہے۔ختمِ نبوت کے یہ معنی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالصراحت بیان فرمائے ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے:
”نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا: یہ مبشرات کیا ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خواب۔”، (بخاری، رقم6990۔ نوٹ: اِس مضمون کی روایات مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی، موطا، مسند احمد بن حنبل اور حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی ہیں)”، (برہان، صفحات192-192)
اس عبارت سے واضح ہے کہ ختمِ نبوت کا مطلب ہی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کسی کے لیے وحی و الہام اور مشاہدے اور رابطے کا کوئی امکان نہیں رہا۔ انہوں نے جو حدیث نقل کی ہے وہ اس بات کی دلیل کے طور پر نقل کی ہے نہ کہ اس کے خلاف استدلال کرنے کے لیے۔حدیث میں جس چیز کا ذکر ہے وہ مبشرات ہیں نہ کہ الہام ۔ یہ مبشرات کیا ہوتے ہیں اور کس طرح پیغمبر کی زندگی سے ان کا تعلق ہوتاہے اس کی واضح مثال سیدنا یوسف کا قرآن مجید میں بیان ہونے والا وہ خواب ہے جس میں وہ چاند سورج اور گیارہ ستاروں کو اپنے سامنے سجدہ ریز دیکھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ خواب ایک تمثیل تھا جو محتاج تعبیر ہوتی ہے۔جبکہ الہام ایک واضح آسمانی رہنمائی ہوتی ہے۔یہی حدیث کا مطلب ہے کہ آسمانی رہنمائی بند ہوچکی ہے البتہ مبشرات یعنی اچھے خوابوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔باقی رہا قرآنِ مجید میں غیر انبیا پر الہام کا ذکر، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ تکوینی نظام ہے جس تحت بہرحال وہ اپنی مخلوقات کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔ اس کا نبوت اور شریعت سے متعلق وحی و الہام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی مثال سورہئ نحل کی آیت 68 اور سورہئ شمس کی آیت 8 میں دیکھی جاسکتی ہے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-19