سوال
میں نے ریحان احمد یوسفی صاحب کا ایک مضمون پڑھا جس میں انہوں نے رسولوں کے قتل ہونے کی تردید کی ہے۔ لیکن میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں۔ ریحان یوسفی صاحب نے قرآن کی سورہ مومن کی آیت نمبر ٥ اور سورہ صٰفٰت کی آیت ١٧٢ اور ١٧٣ کو رسولوں کے قتل ہونے کے رد میں پوری قوت کے ساتھ پیش کیا ہے جب کہ یہ دونوں سورتیں مکی ہیں۔ اگر مکہ میں نازل ہونے والی ان آیتوں کی رو سے رسول کے قتل کے امکان کی تردید کی جا سکتی ہے تو پھر کیا وجہ تھی کہ: ١۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ کو ہجرت کر رہے تھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، اور جب وہ غار ثور میں ٹھہرے تھے اور کافران کا پیچھا کرتے ہوئے غار تک پہنچ گئے تھے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ غمگین کیوں ہو گئے تھے؟ اور وہ اپنے لیے غمگین نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غمگین ہوئے تھے۔اگر رسول قتل نہیں ہو سکتا تو حضرت ابوبکر کو رسول کے لیے کیوں غمگین ہونا پڑا۔ ٢۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی جنگ میں شرکت کے لیے جاتے تو کیوں جب وہ آرام فرماتے تو صحابہ رضی اللہ عنہ ان کے خیمے کے گرد پہرہ دیتے تا کہ کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا سکے؟ ٣۔ جنگ احد کے موقع پر بھی صحابہ رضی اللہ عنہم لگاتار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔٤۔ جنگ احد کے موقع پر جب لوگوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو صحابہ رضی اللہ نے اس بات پر یقین کیسے کر لیا؟ ٥۔ رجم کے بارے میں قرآن کے الفاظ کی وضاحت غامدی صاحب نے جس طرح بیان فرمائی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ عربی زبان میں الزانیۃ والزانی جیسے الفاظ کنوارے زانی کے لیے استعمال ہی نہیں ہو سکتے اسی طرح میرے خیال میں نبی کے قتل کا اگر ذکر ہو رہا ہو تو لفظ رسول کا استعمال بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔٦۔ بخاری میں ایک حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا گیا تھا اور وہ بدن میں پھیلتا رہا اور آخر کار اس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات واقع ہوئی، اس کی وضاحت بھی کریں۔
جواب
مجھے نہیں اندازہ کے آپ نے میری کس بحث اور گفتگو کا حوالہ دیا ہے کیونکہ اس موضوع پر میں نے متعدد جگہ الگ الگ اوقات میں لکھا ہے۔لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملے میں ہمارا نقطہ نظر آپ پر پوری طرح واضح نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ میں آپ کے سوالات کا جواب دینے سے قبل اپنا نقطہ نظر کی بنیاد آپ کے سامنے رکھ دوں۔
قرآن مجید اس بات میں بالکل واضح ہے کہ رسولوں کی مخاطب اقوام کے لیے وہ رسول عدالت بن کر دنیا میں آتے ہیں۔ اگر قوم ان کی بات نہیں مانتی تو آخر کار ہلاک کردی جاتی ہے۔ یہی پورے قرآن مجید کا موضوع ہے۔قرآن مجید نے ہر رسول کی داستان اسی پس منظر میں سنائی ہے۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ رسول تو کفر کی صورت میں قوم کو ہلاکت اور عذاب کی دھمکی دے اور جواب میں قوم ہی رسول ہی کو ہلاک کردے ۔یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے نتیجے میں تو اللہ تعالیٰ کی پوری اسکیم ہی الٹ جائے گی۔نہ صرف یہ بلکہ اللہ تعالیٰ کی شان جلالت پر بھی حرف آجائے گا کہ اس نے اپنے جس سفیر کے ذریعے سے کفار کودھمکی دی گئی تھی ، اسی کے تحفظ پر قادر نہیں ہوسکا۔ عقل اور ایمان دونوں اس مقدمے کو ماننے سے قطعاً انکار کردیتے ہیں۔ قرآن کریم ٹھیک اس بات کی تائےد میں کھڑا ہوا ہے۔ پورا قرآن اس حقیقت سے بھرا ہوا کہ معاملہ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ کفر و انکار پر رسولوں کی قوم کو ہلاک کیا گیا ہے، ایسا نہیں ہوا کہ قوم ہی نے رسول کو ہلاک کردیا ہو۔ ظاہر ہے کہ انہوں اس کی کوشش یقینا کی ہوگی۔ قرآن مجید میں بھی اس کا بیان ہے کہ کفار نے اپنے رسولوں پر آخر کار ہاتھ ڈالنا چاہا، مگر قرآن مجید بالکل واضح ہے کہ کسی قوم کو اس بات میں کامیابی نہیں ہوسکی کہ وہ اپنے رسول کو قتل کردے۔ بلکہ اس کے جواب میں قوم کو ہلاک کردیا گیا۔ بہتر یہ ہوتا کہ وہ تمام ناقدین جو عرصہ دراز سے اس حقیقت کو ماننے کے بجائے لایعنی سوالات اور امکانات کا انبار لگارہے ہیں ، قرآن مجید سے یہ ثابت کریں کہ کسی ایک رسول کوبھی جسے اللہ تعالیٰ نے اس کی قوم کے لیے عدالت بناکر بھیجا ہو، اس کی قوم نے ہلاک کردیا ہو۔ ناقدین کو اس پر محنت کرنی چاہیے ۔ قرآن مجید کی ایک آیت بھی وہ پیش کردیں گے تو ہم اپنے نقطہ نظر سے پیچھے ہٹ جائيں گے۔
میں نے تو نجانے کتنی تحریروں میں اور کتنے ہی سوالوں کے جوابوں نہ صرف قرآن مجید کی ان گنت آیا ت پیش کی ہیں بلکہ ایک ایک رسول کی زندگی کے واقعات کو لے کر یہ بتایا ہے کہ اس کی قوم کے لوگ اسے ہلاک کرنے کے لیے کس حد تک چلے گئے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے ہر حال میں اپنے رسولوں کو بچایا ہے۔حضرت ابراہیم کا واقعہ تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ انہیں زندہ آگ میں پھینک دیا گیا تھا، مگر اللہ نے آگ کو ٹھنڈا کرکے سراپا سرامتی بنادیا۔یہی معاملہ باقی رسولوں کا بھی رہا ہے۔ اس اصولی گفتگو کے بات میں آپ کے اٹھائے ہوئے نکات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں:
١۔٢: ان تین نکات کاجواب یہ ہے کہ صحابہ کرم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے بارے میں متنبہ رہنا اور اپنے طور پر اقدامات کرنا ایک فطری امر تھا۔قرآن مجید تو جگہ جگہ یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کرے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم پر اہل ایمان کی نصرت لازم ہے،(روم47:30)۔ لیکن کیا اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ وہ معجزوں اور فرشتوں کے انتظار میں بیٹھے رہےں۔اور یہ کہیں کہ اللہ تو اپنے دین کو غالب کرہی دے گا ہم اپنے گھروں میں اطمینان کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ غلبہ دین ہو یا نصرت الہی، اہل اایمان کو بہرحال اپنے حصے کا کام کرناتھا۔ وہ انہوں نے کیا بھی لیکن یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی ہستی تھی جس نے کفار کے ارادوں کوموثر نہیں ہونے دیا اور آخرکار دین اور اہل ایمان کا غلبہ ہوکر رہا۔ یہی معاملہ رسول کی حفاظت کا ہے کہ بہرحال وہ اللہ کی پناہ اور نصرت و حمایت میں تھے۔ لیکن کیا مسلمانوں کو ایسے بدترین معاندین اور دشمنوں کے مقابلے میں بالکل بے پروا اور بے حس ہوجانا چاہیے تھا۔میرے نزدیک تو صحابہ کا رویہ عین فطری تھا کہ انہوں نے رسول اللہ کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے ۔ وہ یہ نہ کرتے تو یہ رویہ ناقابل فہم ہوتا۔
٣۔٤: سورہ آل عمران کی جس آیت کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہاں زیر بحث یہ بات اصلاً زیر بحث ہے ہی نہیں کہ رسول قتل ہوسکتے ہیں یا نہیں۔زیر بحث بات یہ ہے کہ اہل ایمان اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس لیے ان کا اصل بھروسہ اور اعتماد اللہ ہی پر ہونا چاہیے۔ اس بات پر نہیں کہ ان کا رہنما دنیا میں رہتا ہے یا نہیں۔یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ قتل کا ذکریہاں صرف اس لیے ہوا ہے کہ جنگ احد میں میدان جنگ میں ایک افواہ اڑ گئی تھی۔ میدان جنگ میںعین دشمنوں کی یلغار اور سخت لڑائی کا ماحول وہ نہیں ہوتا کہ لوگ تلوار کونے میں رکھ کر ایک علمی مجالس منعقد کریں اور اس میںآیات قرآنی سے مستنبط ہونے والے مسائل پر غور و فکر شروع کردیں۔ اسی لیے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ واقعتا ایسی کوئی بات ہوگئی ہے۔جنگ اور شکست کی اس ہلچل میں ذہن میں کسی ایسی چیز کا آجانا کوئی عجیب بات نہیں۔لیکن جیسے ہی لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ کفار کی اڑائی ہوئی افواہ تھی وہ دیوانہ وار رسول اللہ کی طرف لپکے۔
تاہم آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ میدان جنگ میں دو طرف سے گھرے ہوئے مسلمانوں کے لشکر کے پاس اتنا موقع تھا کہ وہ کسی علمی مجلس کا انعقاد کرکے غور وفکرکرتے تو پھر یقینا آپ اللہ تعالیٰ کو یہ مشورہ دےنے کا حق رکھتے ہیں کہ وہ آیت اُس طرح نازل کرتے جس طرح آ پ فرمارہے ہیں۔
٥۔سورہ نور میں آنے والی زانی کے لفظ کے بارے میں ہمارا موقف یہ نہیں کہ زانی کا لفظ کنوارے زانی کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں کہ یہ لفظ کنوارے کے لیے خاص کردیا جائے۔لفظ کو کسی معنی میں استعمال کرنے اورکسی مفہوم کے لیے خاص کردینے میں جو فرق ہے وہ ہر صاحب نظر جانتا ہے۔
جہاں تک آپ کی دوسری بات کو سوال ہے تو اللہ تعالیٰ کسی کے ایمان کو خطرے میں نہیں ڈالتے۔وہ شک میں بھی نہیں ڈالتے۔ یہ نہ ایمانیات کا معاملہ ہے نہ اس پر میری اور آپ کی نجات موقوف ہے۔ جن معاملات پر نجات موقوف ہے وہاں وہ بڑی وضاحت اور صراحت سے اپنی بات بیان کرتے ہیں۔لیکن جس خاص مسئلے میں ہم گفتگو کررہے ہیں یہ ایک علمی بحث ہے اور اس حیثیت میں قرآن مجید کوئی آسان کتاب نہیں۔ اس میدان میں انہی لوگوں کو اترنا چاہیے جو زبان و بیان کااچھا ذوق رکھتے ہوں۔ جو کلام کے سیاق و سباق، موقع محل،اسلوب بیان اور دیگر قرآئن و نظائر کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔میں اس مسئلے پر بڑی تفصیل بحث پہلے بھی کئی دفعہ کرچکا ہوں۔بار بار یہ بتاچکا ہوں کہ رسول عربی زبان کا ایک عام لفظ ہے جو فرستادے کے معنوں میں عام استعمال ہوتا ہے اور قرآن مجید نے بھی اس لفظ کو ایک عام انسان اور فرشتوں کے لیے پیغام لانے والے کے معنوں میں بلا تکلف استعمال کیا ہے۔اسی طرح قرآن نے اسی مفہوم میں، نہ کہ بطور اصطلاح، اس لفظ کو انبیائے بنی اسرائےل کے لیے بھی استعمال کرلیا ہے۔قرآن نے اس لفظ کو جس پس منظر میں انبیائے بنی اسرائےل کے معاملے میں استعمال کیا ہے، اس کی بھی بڑی تفصیلی وضاحت کی ہے۔ معترضین سے یہ پوچھا ہے کہ جس معیار پر بھی وہ رسول کی تعریف کرتے ہیں، اس معیار پر یہ بتادیں کہ بنی اسرائےل میں کتنے رسول آئے ہیں۔ یہ بھی بتاچکا ہوں کہ ان انبیا کے لیے رسول کا لفظ خاص اس مقصد کے تحت استعمال کیا گیا کہ ان کا من جانب اللہ ہونا بنی اسرائےل پرپوری طرح واضح تھا پھر بھی انہوں نے ان کو قتل کیا۔ یا تو آپ نے وہ مباحث پڑے نہیں یا سمجھے نہیں۔ نہیں پڑھے تو پڑھ لیں اور نہیں سمجھتے تو ذرا توجہ سے دوبارہ پڑھیں۔ امید ہے ذہن کی گرہ کھل جائے گی۔ نہیں کھلے تو اطمینان رکھیں اس مسئلے پر میری آپ کی نجات موقوف نہیں ہے۔
٦۔بخاری کی جس روایت(رقم:3169,4249,5777) کا حوالہ آپ نے دیا ہے ، اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبکری کے گوشت میں زہر ملاکر دیا گیاتھا ۔ اس کے بعد جو کچھ آپ نے بیان فرمایا ہے وہ کم از کم بخاری میں نہیں ہے۔ اس لیے آپ اسے استدلال میں پیش ہی نہیں کرسکتے۔ تاہم گستاخی نہ خیال فرمائےں تو ذرا ایک دوسرے پہلو سے اس واقعے کا جائزہ لے لیں۔ یہ واقعہ تو دراصل اس بات کی سچائی کا ثبوت ہے کہ اللہ کے رسولوں کو ان کے معاندین قتل نہیں کرسکتے۔اگر یہ ممکن ہوتا تو یہی وہ موقع تھا جب کوئی انسان عالم اسباب میں رسول کریم کی حفاظت پر قدرت نہیں رکھتا تھا۔مگر صرف یہ اللہ کی ذات تھی جس نے آپ کو بروقت مطلع کردیا اور آپ اس زہر کے اثر سے محفوظ رہے۔اگر رسولوں کے باب میں اللہ کا یہ ضابطہ کارفرما نہ ہوتا تو یہود اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوجائے۔اس لیے یہ روایت تاریخی طور پر اس کا ایک واضح ثبوت ہے کہ اللہ کے رسول قتل نہیں کیے جاسکتے اور اللہ نے حسب وعدہ اپنے رسول کو لوگوں اور خاص کر یہود کے شر سے بچالیا۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-18