سوال
میرا سوال سورۂ نساء کی آیت نمبر 3 کے اُس ترجمے سے متعلق ہے ، جو محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’قانونِ معاشرت‘ میں کیا ہے۔ جاوید صاحب نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ ۔’’یتیموں کی ماؤں سے نکاح کر لو‘‘ میں نے تین چار دوسرے مترجمین کا ترجمہ دیکھا تو اُن سب نے تقریباً یہ ترجمہ کیا ہے کہ ’’جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ، اُن سے نکاح کر لو‘‘۔ جاوید صاحب نے عورتوں کے لفظ کو چھوڑ کر جو یتیموں کی ماؤں کو جو لفظ استعمال کیا ہے اُس نے مجھے کافی Confused کر دیا ہے۔ لہٰذا آپ براہِ مہربانی ا س کی وضاحت کر دیں تاکہ میں آئندہ بھی غامدی صاحب کی تحریروں کو بغیر کسی شک و شبہ کے دیکھتا رہوں ؟
جواب
سورہ نساء کی آیت نمبر3کاترجمہ جاویدصاحب نے اپنی کتاب میزان کے باب قانونِ معاشرت میں اس طرح کیا ہے:
’’اوراگراندیشہ ہوکہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکو گے تو(اُن کی)جو(مائیں )تمھارے لیے جائزہوں ، ان میں سے دودو، تین تین، چار چارعورتوں سے نکاح کر لو۔‘‘ (نساء4: 3)
اس ترجمے سے یہ بات واضح ہے کہ یتیموں کی ماؤں کے الفاظ جاویدصاحب نے اصل ترجمے میں شامل نہیں کیے ، بلکہ انہیں قوسین میں رکھ کریہ واضح کیا ہے کہ ان کی نوعیت ایک وضاحتی بیان کی ہے ۔اس روشنی میں آپ دیکھیں توجاویدصاحب نے ترجمے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، بلکہ وہی ترجمہ کیا ہے جو دوسروں نے کیا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ جاویدصاحب نے ان عورتوں کے بارے میں یہ تخصیص کیوں کی ہے کہ وہ یتیموں کی مائیں ہیں۔ اس کاجواب یہ ہے کہ اس آیت میں ’النساء‘کالفظ استعمال ہوا ہے۔ نساء یعنی عورتوں کے لفظ پر ’ال‘ یعنی The آیا ہے ۔اسے فنی زبان میں اس طرح بیان کریں گے کہ یہ ’ال‘عہدکا ہے ۔یعنی اس’ال‘کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جنسِ عورت سے تعلق رکھنے والی ہرخاتون مراد نہیں ، بلکہ کچھ خاص خواتین مراد ہیں ۔اس آیت میں یتیموں کے ذکر سے یہ قرینہ نکلتا ہے کہ یہ خاص عورتیں بالعموم یتیموں کی مائیں ہی ہو سکتی ہیں۔ یہ بات اس آیت کے سیاق وسباق سے بھی واضح ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یتیموں کے ساتھ ان کے مال کے میں عدل وانصاف کامعاملہ کرناچاہیے اور جن لوگوں کو یہ اندیشہ ہے کہ وہ اس بھاری ذمہ داری کو اٹھانے میں کچھ کوتاہی کرجائیں گے انہیں یہ طریقہ بتایا جا رہا ہے کہ ان یتیموں کی ماؤں وغیرہ سے نکاح کر کے انہیں اس ذمہ داری میں شریک کر لیں اور مشترکہ طورپریہ ذمہ داری اٹھائیں ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-16