پالتو کتوں کا رکھنا

30

سوال

میں گھر میں پالتو کتے رکھنے سے متعلق چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں۔ ریحان یوسفی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا ہے کہ پالتو کتوں کو رکھنے میں کوئی برائی نہیں اور نبی صلی اللہ کے دور میں اس کام کو ممنوع اس لیے کیا گیا تھا کہ اس دور میں ایک بیماری تھی جو کہ کتوں کی وجہ سے پھیلتی تھی۔ اب ان کی اس رائے کے بارے میں میرا یہ سوال ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کتوں پر پابندی اس بیماری کی وجہ سے تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو حفاظت کے لیے رکھنے کی اجازت کیوں دی تھی؟ اس طرح بیماری ان دوسرے کتوں پر بھی پہنچ سکتی تھی۔ دوسرا یہ کہ کیا آپ اس حدیث کا حوالہ دے سکتے ہیں جس میں اس بیماری کا ذکر موجود ہو جو کتوں کی وجہ سے پھیلتی تھی؟

ایک اور جواب رفیع مفتی صاحب نے دیا ہے جس کے نقطہ نظر سے کتوں کو پالتو جانور کی حیثیت سے گھر میں نہیں رکھا جا سکتا لیکن حفاظت کی خاطر رکھا جا سکتا ہے یا پھر شکار کے مقصد سے۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتے کو پالتو جانور کی حیثیت سے کیوں نہیں رکھا جا سکتا جب کہ بلی کو رکھا جا سکتا ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔

جواب

کتوں کے حوالے سے جو کچھ مواد کتب احاديث میں بيان ہوا ہے اس کی بنا پر ہمارے ہاں ايک عمومی رائے يہ ہے کہ کتے رکھنا اور پالنا ناجائز ہے۔تاہم قرآن کریم کے جن جو مقامات کا حوالہ میں نے اپنے پچھلے جواب میں ديا تھا وہ اس بات سے ابا کرتے ہيں کہ کتے پالنے کے عمل کو ناجائز قرار ديا جائے۔مزيد یہ کہ کتب احاديث میں کتوں کے حوالے سے جو روايات آئی ہيں وہ بہت متنوع ہيں ۔ ان ميں کہیں کتے پالنے کی قطعاً ممانعت ہے، کہیں ان کے قتل کا ذکر ہے اور کہیں استثنائی طور پر ان کو بعض مقاصد کے ليے پالنے اور رکھنے کی اجازت ہے۔ میں نے جو جواب ديا تھا اس میں ان تمام پہلوؤں اور قرآن و حديث کے تمام بيانات کی رعايت رکھی گئی تھی۔ اس پس منظر میں آپ کے مجھ سے متعلق دو سوالات کے جواب درج ذيل ہيں۔ ان میں دوسرے سوال کا جواب میں پہلے دے رہا ہوں۔

١)کسی حديث میں وبا کا ذکر نہیں ہے۔ یہ بات میں نے پچھلے جواب ہی میں واضح کردی تھی۔ ليکن قرآئن یہ بتاتے ہيں کہ معاملہ کچھ اسی نوعيت کا تھا کيونکہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ايک خاص نسل کے سياہ کتوں کو شيطان قرار دے کر مارنے کا حکم ديا تھا۔رحمت للعالمین کسی جانور کو مارنے کا حکم ديں، یہ کبھی بلاوجہ نہیں ہوسکتا۔ہمارے نزديک شيطان کا لفظ گويا کہ ايک تمثيلی انداز میں اس شر کا ذکر تھا جو اگر پھيل جاتا تو بڑے پيمانے پر جانی نقصان ہوتا۔ ہم اچھی طرح اس بات سے واقف ہيں کہ زرعی دور میں متعدد وبائی امراض انسانوں میں جانوروں کے ذريعے سے پھيلے اور انہوں نے پوری پوری انسانی بستياں ختم کرڈالیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کوئی اور سبب اس بات کا نظر نہیں آتا کہ ايک جانور کے قتل عام کا حکم دے ديا جائے۔

٢) جہاں تک باغوں وغيرہ کی حفاظت کے ليے رکھے گئے کتوں کی استثنائی اجازت کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں محسوس يہی ہوتا ہے کہ اصل میں ايک خاص زمانے میں اور خاص پس منظر میں کتوں کے رکھنے ، پالنے اور خريد و فروخت وغيرہ سب کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ جب صورتحال قابو میں آگئی اور تمام آوارہ کتے مارديے گئے تو اس کے بعد لوگوں كو صرف کسی خاص اورناگزير مقصد کے ليے کتوں کو رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ يہی وہ اجازت ہے جس کی بنياد پر جناب رفيع مفتی صاحب نے اپنے جواب کی بنياد رکھی ہے۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-12-16

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading