سوال
میں آج کل شدید الجھن سے دو چار ہوں اور اس الجھن کے بیج مجھ میں پرویزی حضرات نے بوئے ہیں۔ ویسے تو میں ان کی احادیث پر بے جا تنقید سے بے زار ہوں اور پرویز صاحب کی قرآن فہمی بھی میرے لیے ادنیٰ درجے میں بھی قابل تبصرہ نہیں کہ میں اس کو جہالت سمجھوں۔ لیکن ان کی نماز پر تنقید نے یقینا کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ کر دی ہے اور اس کے باعث میں نے آج کل نماز ترک کر رکھی ہے جس کا مجھے ملال رہتا ہے۔ ان حضرت کی تنقید کے علاوہ بھی میرے ذہن میں کچھ سوال ہیں:
۱۔ کیا نماز اسی طرح سختی سے پانچ وقت کی ادا کرنا فرض ہے جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے؟
۲۔ کیا نماز کا ترک کر دینا کافر ہو جانے کے برابر ہے؟
۳۔ اسلام اگر دین فطرت ہے تو نماز کی ہر حال میں پابندی اور کوتاہی کے نتیجے میں شدید ترین گناہ ہے، ایک ایسی بات ہے جو کہ ہر خاص و عام مسلمان پر بیک وقت لا گو ہو، کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔
۴۔ میں جو آج کل نماز سے بالکل غافل ہوں تو میرا کیا مقام ہو سکتا ہے اﷲ کے نزدیک؟
۵۔ پانچ وقتی نمازی کو انتہائی بے ایمان بے دیکھا ہے اور بے نمازی کو بے حد ایماندار بھی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟
۶۔کیا نماز کے بغیر جنت کا حصول ممکن ہے؟
الغرض اس طرح کے بے شمار وسوسے میرے دامن گیر ہیں۔ برائے مہربانی اس ضمن میں میری اصلاح فرمائیں۔
جواب
دین کا ماخذ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ کی ذات سے ہم تک یہ دین دوطریقوں سے منتقل ہوا ہے۔ ایک قرآن مجید اور دوسرا سنت۔ دین کا تمام تر عملی ڈھانچہ سنت کے ذریعے ہی سے ہم تک منتقل ہوا ہے۔قرآن مجید میں نماز کا ذکر، تاریخ ، تاکید، تعلیم، تفصیل ،توضیح،اہمیت اور اصرار کے پہلو سے تو ہوا ہے، مگر اس کا عملی طریقہ، اوقات، رکعات اور دیگر قانون پہلوؤں کا ماخذ سنت ہے۔ یہ سنت امت کے عملی تواتر اور عملی اجماع سے ہم تک منتقل ہوئی ہے اور اسی طرح یقینی ہے جس طرح قرآن پاک ہے۔ جو لوگ سنت سے ہٹ کا نماز کا کچھ اور مفہوم نکالتے ہیں وہ سرتاسر غلطی پر ہیں۔ اس اصولی بات کے بعد آپ کے متعین سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:
۱) جی ہاں۔ نماز اسی قدر اہتمام اور سختی کے ساتھ اداکرنا فرض ہے جس طرح بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ساری تاکید قران مجید میں ہمیں ملتی ہے۔
۲) جی ہاں۔ نماز اﷲ کی پرستش کا سب سے بڑا عملی مظہر ہے۔ جو شخص اس سے انکار کردیتا ہے وہ عملی طو رپر یہ پیغام دے رہا ہے کہ میں اﷲ معبود برحق کی پرستش کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ خدا کی بڑائی اور عظمت کا عملاً انکار کردیتا ہے۔اسے کفر نہ کہیں تو کیا ایمان کہیں گے؟ یا د رکھیے نماز وہ بنیادی مطالبہ ہے جو اسلام کا علامتی اظہار ہے۔ اسلامی حکومت اس کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتی ہے اور انکار کی صورت میں مسلمان ہونے کی شناخت قانونی طور پر دینے سے انکار کرسکتی ہے۔ رہی آخرت تو جگہ جگہ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ نماز نہ پڑھنا ایسا جرم ہے جو جہنم میں لے جانے کا باعث ہوسکتا ہے۔
۳) دین فطرت ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز فرض نہ کی جائے۔اس اصول کو مان لیا جائے تو ایک اور شخص اٹھ کر کہے گا کہ روزہ فطرت کے خلاف ہے۔ اس کو بھی دین سے نکالو۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ نماز ہر حال میں لازماً اذان کے ساتھ، مسجد میں یا جماعت سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ ہر نماز کے لیے کافی وقت ہوتا ہے۔ اس وقت میں جب بھی موقع ملے اور جہاں جگہ ملے نمازادا کرنے سے وہ ادا ہوجائے گی۔ سفر ، جنگ یا آپا دھاپی کی دیگر صورتیں میں نماز کے اوقات میں کافی کچھ رعایت رکھی گئی ہے۔اوقات نماز کے ساتھ رکعات نماز میں بھی کافی تخفیف ہے۔وضو کی شرط میں ایسے حالات میں بڑی رعایت کردی گئی ہے۔ یہ اور ان چیزیں دیگر تمام رعایتیں دین فطرت ہونے کے پہلو ہی سے ہیں۔ جو شخض چاہے ان مشکل حالات رعایت کو استعمال کرتے ہوئے دو منٹ میں نماز ادا کرسکتا ہے۔ اپنی سہولت اورآسانی کے یہ دو منٹ اپنے مالک کو دینے سے فطرت پر کیا اثر پڑ جاتا ہے؟
۴) آپ کے مقام کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے۔ یہ فیصلہ اﷲ تعالیٰ ہی کریں گے۔ مگر آپ کے سوال کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو توفیق دے رہے ہیں کہ آپ اس کی عبادت کی طرف لوٹیں۔ فجر کی دو، ظہر ، عصر، عشا کی چار اور مغرب کی تین رکعتیں اتنی مشکل نہیں جتنا آپ نے سمجھ لیا ہے۔تاہم اگر یہ زندگی بھر آپ کے لیے مشکل رہیں تو اندیشہ کہ مرنے کے بعد آپ کے لیے بڑی مشکل نہ کھڑی ہوجائے۔
۵) ایک شخص اگر دفتر جاکر کام نہیں کرتا تو اس سے یہ کہا جاتا ہے کہ دفتر جاکر کام کرو۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ دفتر بھی نہ جاؤ۔ جو لوگ نماز پڑھ کر بددیانتی کرتے ہیں تو ان کو دیانت داری کی تلقین کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے لوگ اسے بہانا بناکر نماز پڑھنا چھوڑدیں۔ یاد رکھیے دیانت داری الگ نیکی ہے اور نماز پڑھنا الگ کا م ہے۔ میں دیانت دار ہوں یہ کہہ کر نماز سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ نماز دیانت داری سے اﷲ کی شکر گزاری کا نام ہے۔ جو نما ز نہیں پڑھتا وہ اپنے روحانی وجود سے دیانت دار نہیں ہوتا۔
۶۔ نماز نہ پڑھنا اﷲ سے بغاوت ہے۔ یہ انے محسن کے حکم سے نافرمانی ہے۔ جس نے زندگی دی اور اس کی ہر نعمت دی اس کے سامنے جھکنے سے انکار ہے۔ ایسے شخص کو یہ جرات کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ قیامت کے بعد جنت میں اﷲ کے قرب کا متلاشی ہو۔جس نے دنیا میں خداکے آگے جھکنے سے انکار کردیا وہ کس منہ سے کل قیامت کے دن اﷲ سے جنت میں جگہ مانگ سکے گا۔
نماز پڑھیے۔ ہر طرح کے وسوسوں کے باوجود پڑھیے۔ یہ اﷲ کی شکر گزاری کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اس سے وفاداری کا اظہار ہے۔ جو شکر گزار اور وفادار نہیں وہ کسی نعمت کا حقدار بھی نہیں ہے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-05