سوال
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر انسانوں کو جس عذاب سے ڈرایا ہے وہ ‘عذاب النار’ یعنی ‘جہنم کا عذاب’ ہے، جو کہ ایک اٹل اور مصمم حقیقت ہے۔مگر آج کل کی تبلیغ پر اگر غور کیا جائے تو ہر فرقہ’عذاب قبر’ سے ڈراتا ہوا نظر آتا ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حساب کاایک دن مقرر کردیا اور واضح طور پر قرآن میں فرمادیا ہے کہ اُس دن تمام اِنسان دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کیے جائیں گے اور تب ہی اُن کی سزا وجزا کا فیصلہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو پھر’عذاب قبر’ کیا ہے ؟ اِس کی کیا حقیقت ہے ؟ اگر اِنسان کو مرنے کے بعد قبر میں عذاب دیا جائے گا، تو اِس کا کوئی حوالہ کیا قرآن میں کہیں دیا گیا ہے؟
جواب
یہ بات تو بجا طور پر درست ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جس عذاب سے ڈرایا ہے وہ روز قیامت خدائی جزا وسزا کے فیصلے کے بعد مستحقین کے لیے تیار کیا جانے والا عذاب ،عذاب النار ہی ہے۔بلاشبہ قرآن مجید اپنی دعوت میں جابجا اِسی کی تنبیہ کرتا اور وعید سناتاہے ۔اوراِسی سے بچنے کی تلقین کرتاہے ۔اوریہ واقعہ ہے کہ دین اسلام کی دعوت کا بیڑا اُٹھا نے والوں کو ہم آج جب اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے برعکس اُن کے ہاں بالعموم جس چیز کی تنبیہ اور وعید کا بکثرت تذکرہ ملتا ہے، وہ ‘عذاب قبر’ ہے۔
ہمارے نزدیک اِس میں اور قرآن کے طریقہ دعوت میں فرق کی وجوہات در اصل تین ہیں ۔ایک یہ کہ عملاً دعوت دین کا اصل ماخذ قرآن مجید کو بنانے کے بجائے براہ راست احادیث وآثار کو بنالیا گیا ہے۔دوسرے یہ کہ روایات وآثار میں بھی صحیح وسقیم کی تمییز سے صرف نظر کرلیا گیا ہے۔اگر تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو عذاب قبر کے حوالے سے بیان کی جانے والی روایتوں میں ایک بڑی تعداد کمزور اور من گھڑت احادیث کی بھی ہے؛ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ بالعموم اِس کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔تیسرے یہ کہ اِس باب میں جو روایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت بھی ہیں ؛ اُنہیں قرآن مجید کی روشنی میں بالعموم سمجھا نہیں گیا۔
جہاں تک اصل سوال کا تعلق ہے کہ عذاب قبر اور اس کی حقیقت کیا ہے؟قرآن مجید کے تناظر میں اِسے کیسے سمجھا جائے؟تو دیکھیے اِس دنیا میں بھیجا جانے والا اِنسان قرآن کی رو سے در حقیقت آخرت کا مسافر ہے ۔یہاں اُسے محض آزمایش کے لیے بھیجا گیا ہے۔جس کے نتیجے میں روز قیامت اُسے جزا یا سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔اُس دن کی حاضری کے لیے اِنسان جن مراحل سے گزرتا ہے اور جن مقامات پر اُسے ٹھیرایا جائے گا؛اُس کی تفصیلات بھی قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔وہ چاہے نہ چاہے اُسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔اِس سفر کا پہلا مرحلہ موت ہے ۔دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد یہ مرحلہ ہر انسان پر لازماً آتا ہے ۔اِس سے کسی کو مفر نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ‘کل نفس ذائقة الموت’،(ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے) (آل عمران٣:١٨٥)۔یہ کسی بھی وقت ،کسی بھی حالت میں ،کسی بھی عمر میںاورکہیں بھی آسکتی ہے ۔اِس کی حقیقت قرآن میں یہ بیان ہوئی ہے کہ اِنسان کی اصل شخصیت کو ،جسے قرآن میں’نفس’ سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو اُس کے جسمانی وجود سے الگ ایک مستقل وجود ہے،اُس کے جسم سے الگ کردیا جاتا ہے۔اِسی کا نام موت ہے۔اِس کے لیے ایک خاص فرشتہ مقرر ہے جس کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے(النساء٤:٩٧۔الانعام ٦:٩٣۔النحل١٦:٢٨)۔وہ آکر باقاعدہ اِس کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے،جس طرح ایک سرکاری امین کسی چیز کو اپنے قبضے میں لیتا ہے(السجدہ ٣٢: ١١)۔
اِس موت کے بعد سفر آخرت میں جس مرحلے سے اِنسان کا گزر ہوتا ہے،اُسے ‘برزخ’ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ فارسی لفظ ‘پردہ’ کا معرب ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روک ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی:’من ورائهم برزخ الی یوم یبعثون'(اُنکے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے،جب وہ اُٹھائے جائیں گے)(المومنون٢٣: ١٠٠)۔
عالم برزخ کی اصطلاح اِسی سے وجود میں آئی ہے۔روایتوں میں ‘قبر’ کا لفظ مجازاً اِسی عالم کے لیے بولا گیا ہے۔اِس میں انسان زندہ ہوگا،لیکن یہ زندگی جسم کے بغیر ہوگی اور روح کے شعور،احساس اور مشاہدات وتجربات کی کیفیت اِس زندگی میں کم وبیش وہی ہوگی جو خواب کی حالت میں ہوتی ہے۔چنانچہ فرمایا ہے کہ قیامت کے صور سے یہ خواب ٹوٹ جائے گا اور مجرمین اپنے آپ کو یکایک میدان حشر میں جسم و روح کے ساتھ زندہ پاکر کہیں گے: ‘يويلنا من بعثنا من مرقدنا'(ہائے ہماری بد بختی ،یہ ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کون اُٹھالایا ہے)(یس٣٦: ٥٢)۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ وہ اپنے پروردگار کے لیے درجہ کمال میں وفاداری کا حق ادا کرنے والے ہیں؛اُن کے لیے ایک نوعیت کا ثواب اِسی عالم میں شروع ہوجائے گا۔قرآن کے مطابق اِس کی مثال وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اپنے پروردگار کے حکم پر اُس کے دشمنوں سے جنگ کی اور پھر شہید ہوگئے۔قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ زندہ ہیں،اور اپنے پروردگا کی عنایتوں سے بہرہ یاب ہورہے ہیں(آل عمران٣: ١٦٩-١٧١)۔
بالکل اِسی طرح قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ وہ سرکشی اور تکبر سے جھٹلانے والے اور اپنے پروردگار کے کھلے نافرمان ہیں،اُن کے لیے ایک نوعیت کا عذاب بھی اِسی عالم برزخ میں شروع ہوجائے گا۔قرآن کی روشنی میں اِس کی مثال فرعون اور اُس کے پیروکار ہیں جو موسی علیہ السلام کی طرف سے اِتمام حجت کے بعد بھی حق کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔چنانچہ اپنی اِس جرم کی پاداش میں دنیا میں بھی عذاب سے دوچار ہوئے اور عالم برزخ میں بھی صبح وشام اُنہیں دوزخ کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے(المومن٤٠: ٤٥-٤٦)۔اِس طرح کے دونوں گروہوں کے ساتھ عالم برزخ میں اِس معاملہ کی وجہ یہ ہے کہ اُن سے حساب پوچھنے اور اُن کے خیر وشر کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
احادیث میں قبر کے جس عذاب وثواب کا ذکر ہوا ہے ،وہ در حقیقت یہی ہے(بخاری ، رقم١٣٧٩۔مسلم، رقم٧٢١١)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید بتایا ہے کہ آپ کی بعثت جن لوگوں میں ہوئی ، اُن کے لیے اِس کی ابتدا اِس سوال سے ہوگی کہ وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں(بخاری ، رقم١٣٧٤۔مسلم ، رقم٧٢١٦)۔ اِس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے ۔اپنی بعثت کے بعد رسول ہی اپنی قوم کے لیے حق وباطل میں امتیاز کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔اِس لیے، اُس پر ایمان کے بعد پھر کسی سے اور کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
مجیب: Muhammad Amir Gazdar
اشاعت اول: 2015-10-18