سوال
میں نے اپنے ایک سوال میں جناب امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب تزکیہ نفس کے مطابق نماز کے شروع میں دعائے ابراہیمی پڑھنے کا ذکر کیا تھا۔ ریحان صاحب نے کہا ہے کہ یہ تکبیر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔ جب کہ تزکیہ نفس کا مطالعہ کی جائے تو اس کے مطابق یہ دعا تکبیر سے پڑھنی چاہیے۔ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔ مزید یہ کہ غامدی صاحب کی میزان کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے نوٹ کیا کہ غامدی صاحب کے مطابق بھی اس دعا کو تکبیر کے بعد پڑھنا چاہیے۔ برائے مہربانی اس مسئلے کو واضح کریں اور رہنمائی فرمائیں۔
جواب
بیشتر روایات جو اس دعا کے حوالے سے منقول ہیں اس دعا کو دعائے استفتاح یعنی نماز کے آغاز کی دعا کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ جن میں واضح ہے کہ یہ دعا تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھی جاتی تھی۔البتہ ایک روایت (ترمذی، رقم3421) الفاظ ہیں کہ ”ان رسول الله صلی الله عليه وسلم کان اذا قام الی الصلوةقال ۔۔۔” پھر یہی دعا منقول ہے۔جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نماز کے باقاعدہ آغاز سے قبل نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے یہ دعا کی جاسکتی ہے۔
تاہم اگر آپ اصلاحی صاحب کی کتاب کے متعلق صفحات یعنی صفحہ نمبر 245تا246غور سے پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انہوں نے اس دعا کے سوا کوئی اور دعائے استفتاح بیان نہیں کی۔جس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات میں واضح تھے، مگر بیان میں شائد بات اس طرح واضح نہیں ہوسکی۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-18