سوال
یہ سوال جناب ریحان احمد یوسفی کی خدمت میں ہے جو کہ المورد ویب سائٹ پر اردو سوالات کی فہرست میں پوسٹ کیے گئے ایک سوال سے متعلق ہے جس کا جواب جناب ریحان احمد یوسفی صاحب نے دیا ہے۔ ان کا دیا گیا جواب نا قابل سمجھ ہے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ لوگ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے حضرت عثمانؓ کے خلاف کیوں جاتے؟ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس بارے میں کوئی شک نہیں کے حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں بھی بہت سے مسائل موجود تھے۔ اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیےجيسا کہ جناب یوسفی صاحب نے كہا فسادی گروہ کی قیادت حضرت ابو بکرؓ کا بیٹا اور حضرت عائشہؓ کا بھائی کر رہا تھا۔ اگر فسادی گروپ کو طلحہ، زیبر، اور علی رضی اللہ عنہم کو مارنا تھا، اور پھر بعد میں طلحہ اور زبیر کا آرمی میں شامل ہو جانا اور حضرت علیؓ پر حملہ کرنا کیا ثابت کرتا ہے؟ کیا یہ یہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت علیؓ غلط راستے پر تھے اس لیے طلحہ اور زبیر نے ان سے قصاص لینے کے لیے حضرت علیؓ کے خلاف فوج بندی کی۔ علیؓ پر وہاں کیوں شک کیوں کیا گیا جب کہ سب جانتے ہیں کہ علیؓ ، حضرت محمدؐ سے کتنے قریب ہیں اور ان کا کردار کسی بھی خامی سے پاک ہے؟کیوں حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں نے حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓ کے قتل کا ذمہ دار تصور کر لیا بجائے اس کے کہ ان کا ساتھ دیا جائے؟ کیوں پیغمبرؐ کا خاندان ہی آخر تک قتل کی سزا بھگتتا رہا؟ علیؓ، حسنؓ، حسینؓ اور ان کا پورا کا پورا خاندان انہی (فسادی گروہ) لوگوں کے ہاتھوںکیوں مارا گیا؟
کربلا جو کہ ایک بہت پرانا واقعہ ہے اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے بنیادی وجہ کیا ہے. برائے مہربانی مجھے اس سوال کا جواب تفصیل کے ساتھ دیا جائے مناسب تاریخی حوالوں اور ثبوت کے ساتھ۔ اور مہربانی فرما کر مجھے اس جنگ کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت کے بارے میں بتائیے اور اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیے کہ یزید کی اسلامی تاریخ میں کیا پہچان ہے؟ یہ ایک نازک مسئلہ ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
جواب
صحابہ کرام کے مابین ہونے والی جنگوں اور واقعہ کربلا کے متعلق تاریخ کا ایک زاویہ وہ ہے جسے آپ نے بیان کیا ہے، تاہم اس حوالے سے تاریخ کا ایک دوسرا زاویہ بھی موجود ہے۔ یہ زاویہ بھی اتنا ہی مدلل اور تاریخی حقائق پر مبنی ہے جتنا پہلے زاویے کے دعویدار لوگوں کا اپنے نقطہ نظر کے حق میں گمان ہے۔ آپ نے یا تو اس نقطہ نظر کو پڑھا نہیں یا پھر اپنے نقطہ نظر پر آپ کا اعتماد یقین سے تجاوز کرکے ایمان کی سرحدوں میں داخل ہوچکا ہے، اسی لیے آپ اسے کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور اسی لیے آپ حضرت معاویہ، طلحہ، عائشہ اور زبیر رضی اللہ عنھم پر سوال اٹھاتے وقت اس ناقابل تردید حقیقت کو بھی فراموش کرگئے ہیں کہ بلوائی تمام کے تمام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے۔ اسی طرح آپ نے اس حقيقت سے بھی آنکھيں بند کرليں کہ محمد بن ابوبکرجو بقول آپ کے فساديوں کی قيادت کررہے تھے اور جن کے متعلق آپ نے بڑے زور سے یہ بات کی ہے کہ وہ حضرت ابوبکر کے بیٹے اور حضرت عائشہ کے بھائی تھے، وہ درحقيقت حضرت علی ہی کے پروردہ تھے کيونکہ کہ حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ محترمہ اسماء بنت عمیس سے حضرت علی نے شادی کی تھی اور نتيجتاً محمد بن ابی بکر نے سيدنا علی کی گود ميں پرورش پائی تھی۔یہ دونوں حقائق آپ کو اگر یاد رہیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ جن صحابہ کرام پر آپ نے تعریض کی ہے انہیں کیوں حضرت علی کے خلاف غلط فہمی ہوگئی تھی۔ اس یاددہانی سے ہمارا مقصد قطعاً یہ نہیں ہے کہ حضرت علی کو تمام واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے،ہم صرف آپ کو تاریخ کا ایک دوسرا زاویہ دکھانا چاہتے ہیں جس سے آپ نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
جہاں تک ہمارا معاملہ ہے آپ نے غالباً غور نہیں فرمایا کہ ہمارے استدلال کی بنیاد تاریخ پر ہے ہی نہیں۔ ہم نے اپنی بات کا آغاز قرآن کریم کے اُن بیانات سے کیا تھا جن کے بارے میں ہر مسلمان کا پختہ یقین ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بے خطا علم پر مبنی ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو صرف ماضی ہی پر محیط نہیں بلکہ مستقبل کے واقعات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ جو واقعات زیرِ بحث ہیں وہ انہی صحابہ کرام سے متعلق ہیں جن کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں چنانچہ مشاجرات صحابہ سے متعلق جواب دینے کا ایک طریقہ کار وہ ہے جس میں دیگر اہل علم تاریخ کے مذکورہ بالا دو زاویوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو غلط ٹھہراتے اور تاریخی واقعات کی بنیاد پر صحابہ کرام کی تنقیص کرتے ہیں۔ دوسرا راستہ وہ ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی قرآن مجید کو بنیاد بناکر تاریخ کا وہ زاویہ سامنے لایا جائے جس سے صحابہ کرام میں سے کسی پر کوئی حرف نہ آئے۔ اگر ہم قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی کتاب مانتے ہیں تو ہمارے نزدیک ایسے سوالات کا جواب دینے کا یہی درست طریقہ ہے۔
ہمارے نزدیک اصل واقعہ بھی یہی تھا کہ ساری ذمہ داری بلوائیوں پر عائد ہوتی ہے۔ صحابہ کرام کی نیت اور ان کے اخلاص کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ ان میں سے جس نے جو درست سمجھا پوری نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ وہی کیا۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ ہم سے تاریخی امور پر گفتگو کرنے کے بجائے صحابہ کرام کے بارے ميں قرآن کریم کے بیانات پر گفتگو کريں۔ آپ کے غور و فکر کے لیے ہم صحابہ کرام سے متعلق قرآن مجید کی ایک ایسی آیت نقل کررہے ہیں جو اس سے پچھلے جواب میں ہم نے نقل نہیں کی تھی۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ بالکل آخری زمانے میں نازل ہوئی اور فتحِ مکہ سے پہلے اور بعد میں ایمان لانے والے صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اصولی مؤقف کا ایک انتہائی واضح بیان ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ اُن کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے، (توبہ100:9)
آپ سے درخواست ہے کہ اپنے جذبات اور ایمان دونوں کی اساس قرآن کریم کو بنائیے نہ کہ تاریخی واقعات کو۔ یہی عافیت کا واحد راستہ ہے۔ آپ یہ کریں نہ کریں ہمارا طریقہ بہرحال یہی ہے۔
اس جواب کے کسی پہلو کے حوالے سے اگر کوئی بات مزيد وضاحت طلب ہے توآپ بلا جھجک ہم سے رابطہ کريں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بات درست ہے اسے ہمارے دلوں ميں راسخ فرمادے اور ہماری غلطيوں کو معاف فرماکر صحيح بات کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے،آمين۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-12-29