اصحاب رسول اور ان کی سیرت

19

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ جب کوئی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے خاص طور پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ان کی سیرت کے معاملے میں۔ اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون صحیح تھا کون غلط۔ جیسا کہ جنگ جمل میں حضرت عائشہ ؓ صحیح تھیں یا حضرت علیؓ؟ میرے نقطہ نظر سے کوئی بھی صحیح نہیں تھا۔ کیوں کہ حضرت عائشہؓ نے حضرت علیؓ کی مخالفت میں حکومت کی رٹ کو چیلینج کیا اور حضرت علیؓ کے پاس دونوں گروہوں کو قابو کرنے کے لیے کوئی چارہ نہیں تھا۔ جس کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلا۔ اسی طرح کربلا کی جنگ، ہر مسلمان اسے مذہب کے لیے لڑی گئی جنگ تصور کرتا ہے جب کہ اگر تاریخ کا صحیح طرح سے مطالعہ کیا جائے تو اس جنگ کی وجہ سیاسی کھیل ہے جس میں دونوں گروہوں نے اپنے اپنے طور پر مناسب برتری لے رکھی تھی۔ برائے مہربانی رہنمائی کیجیے کہ ان اصحاب کو کس نظر سے دیکھا جائے اور ان کے صحیح غلط ہونے کا فیصلہ کیسے کیا جائے۔ کیوں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان میں سے ایک گروہ صحیح تھا اور دوسرا غلط۔ وضاحت کیجیے۔

جواب

آپ نے تاريخ کے بعض واقعات کی روشنی ميں يہ سوال کيا ہے کہ ان واقعات ميں جو کچھ پيش آيا اس کی بنا پر صحابہ کرام کے کردار کے بارے ميں کنفيوژن پيدا ہوسکتا ہے۔ تاہم ہماری ناقص رائے ميں صحابہ کرام کی سيرت و کردار اور ان کے مقام و مرتبے کو جانچنے کا بنيادی معيار تاريخ نہيں قرآن پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزديک صحابہ کرام کی حيثيت کيا ہے، دين کی خدمت ميں ان کا کردار کيا اور ان کی عمومی سيرت و کردار کيا ہے، ان چيزوں کو قرآن کريم نے موضوع بنا کر بيان کرديا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”تم بہترین امت ہوجولوگوں (کی رہنمائی)کے لیے مبعوث کیے گئے ہو،معروف کاحکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہواوراللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”(آل عمران3:110)

”اورجولوگ ایمان لائے، ہجرت کی اوراللہ کی راہ میں جہاد کیا، اوروہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی، یہی لوگ پکے مومن ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اورباعزت روزی ہے۔”(الانفال8:74)

”اوراللہ کی راہ میں جدوجہدکروجیساکہ اس کاحق ہے۔اسی نے تم کوبرگزیدہ کیااوردین کے معاملے میں تم پرکوئی تنگی نہیں رکھی۔ تمھارے باپ- ابراہیم-کی ملت کو(تمھارے لیے پسندفرمایا)۔اسی نے تمھارا نام مسلم رکھا،اس سے پہلے۔ اوراس(قرآن)میں بھی (تمھارا نام مسلم)ہے۔ تاکہ رسول تم پراللہ کے دین کی گواہی دے اورتم دوسرے لوگوں پراس کی گواہی دو۔اورنمازکااہتمام رکھواورزکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کومضبوط پکڑو۔وہی تمھارامرجع ہے اورکیاہی خوب مرجع اورکیاہی خوب مددگار ہے!”(الحج22:78)

”محمد،اللہ کے رسول،اورجوان کے ساتھ ہیں وہ کفارپرسخت،آپس میں رحم دل ہیں۔ تم ان کواللہ کے فضل اوراس کی خوشنودی کی طلب میں رکوع وسجود میں سر گرم پاؤ گے۔ ان کاامتیازان کے چہروں پرسجدوں کے نشان سے ہے۔ ان کی یہ تمثیل تورات میں ہے۔ اورانجیل میں ان کی تمثیل یوں ہے کہ جیسے کھیتی ہوجس نے نکالی اپنی سوئی، پھراس کوسہارادیا،پھروہ سخت ہوئی، پھروہ اپنے تنہ پرکھڑی ہوگئی کسانوں کے دلوں کوموہتی ہوئی تاکہ کافروں کے دل ان سے جلائے۔اللہ نے ان لوگوں سے جوان میں سے ایمان لائے اورجنھوں نے نیک عمل کیے مغفرت اورایک اجرعظیم کاوعدہ کیاہے۔”(الفتح48:29)

يہ آيات صحابہ کرام اور ان کے کردار کے بارے ميں ہر قسم کے شک و شبہ اور کنفيوژن کا خاتمہ کر ديتی ہيں۔ يہ بتاتی ہيں کہ وہ صحابہ اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ لوگ تھے جن پر اللہ کے رسول نے دين کی شہادت تھی اور پھر يہ صحابہ کا منصب تھا کہ وہ دنيا تک اس دين کو پہنچانے والے بنے۔اسی طرح يہ بھی ہميں معلوم ہوا کہ يہ لوگ بے مثل سيرت و کردار کے لوگ تھے جو اللہ اور بندوں کے حقوق پوری طرح سمجھتے تھے۔ تاريخ سے ہميں معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کريم واقعتا ايسے ہی لوگ تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ہر طرح کے حالات ميں بھرپور ساتھ ديا اور آپ کے بعد خلافت راشدہ کے دور ميں اس دور کی پوری متمدن دنيا ميں اسلام کا پيغام پہنچاديا۔

اس کے بعد ہم ان اشکالات کی طرف آتے ہيں جو جنگ جمل کے حوالے سے آپ کے ذہن ميں ہيں۔ يہ جنگ اور سيدنا علی کے دور ميں ہونے والے ديگر ناخوشگوار واقعات، اچانک پيش نہيں آئے بلکہ ان کے پيچھے تاريخی واقعات کا ايک تسلسل ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔اس کے لیے آپ کو تاريخ ميں کچھ پہلے جانا ہوگا اوراس فساد کی وجوہات پر غور کرنا ہوگا جو حضرت عثمان کے دور ميں برپا ہوا۔

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور ميں اسلام انتہائی مختصر وقت ميں تمام متمد ن دنيا ميں پھيل گيا۔آپ اندازہ کيجيے کہ نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کے صرف پندرہ بيس برس کے اندر وسط ايشيا سے لے کر شمالی افريقہ اور بلوچستان سے لے کر شام و عراق تک لاکھوں مربع کلوميٹر کا علاقہ اسلام کے دائرے ميں آيا اور وہاں رہنے والے کروڑوں لوگ اسلام کی روشنی ميں داخل ہوگئے۔ تاہم حضرت عثمان کے دور خلافت تک دو غير معمولی تبديلياں رونما ہوچکی تھيں۔ ايک يہ کہ ابتدائی اسلام لانے والے مسلمانوں اور اکابرين صحابہ کی ايک بڑی تعداد کا انتقال ہوچکا تھا۔دوسرے لاکھوں کروڑوں کی تعداد ميں جن لوگوں نے اسلام قبول کيا تھا وہ ابھی غير تربيت يافتہ تھے۔ وہ ايک برتر مذہب کی حقانيت کے قائل تو ہوگئے تھے، مگر اپنی قديم تہذيوں، مذاہب اور رسوم و عادات کا رنگ ان پر سے ابھی نہيں اترا تھا۔

يہ وہ صورتحال تھی جس سے فائدہ اٹھاکر کچھ فتنہ پرور لوگوں نے جو بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے، فساد پھےلانا شروع کرديا۔ انہوں نے افواہوں اور غلط فہميوں کا ايک بازار گرم کرکے دور دراز صوبوں کے بعض لوگوں کو خليفہ وقت سيدنا عثمان کے خلاف کرديا۔ يہ لوگ حج کے بہانے مصر، کوفہ اور بصرہ سے نکلے اور مدينہ کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ سيدنا عثمان اسے محض اپنے خلاف لوگوں کی ذاتی شکايت سمجھتے رہے، اسی ليے انہوں نے کوئی سخت اقدام نہ کيا۔وہ ان لوگوں کو غلط فہمی ميں مبتلا مخلص مسلمان سمجھتے رہے تاہم يہ لوگ اصلاً فسادی تھے۔ آخر کار ان فساديوں نے سيدنا عثمان کو شہيد کرديا۔

يہ وہ اندوہناک واقعہ ہے جس کے بعد معاملا ت پر کسی کا بھی اختيار نہ رہا۔دراصل ان فساديوں نے عام لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کے ليے تين جليل القدر صحابہ کا نام استعمال کيا تھا۔يعنی حضرات طلحہ، زبير اور علی رضی ان اللہ تعالیٰ اجمعين اور ان کی طرف بے دريغ ہر قسم کے جھوٹ منسوب کرکے عام لوگوں کو غلط فہميوں ميں مبتلا کیا۔ یہ ذرائع ابلاغ کا موجودہ دور تو تھا نہيں جب فون اور موبائل کرکے لوگ ايک دوسرے سے صحيح بات دريافت کرسکتے۔آخرکار ان لوگوں نے سيدنا عثمان کو شہيد کرڈالا۔ سيدنا عثمان کی شہادت کے بعد ان بلوائيوں نے اعلان کرديا کہ اہل مدينہ دو دن ميں خلفيہ منتخب کرليں وگرنہ ان تينوں بزرگوں کو شہيد کرديا جائے گا۔ان حالات ميں سيدنا علی خليفہ بنے اور ديگر لوگوں کے ساتھ بلوائيوں نے بھی ان کی بيعت کرلی۔

اب حضرت علی خليفہ ہيں اور بدقسمتی سے بلوائی ان کے ساتھ ہی موجود ہيں۔ ايک دفعہ پھر جھوٹ اور پروپيگنڈا کا طوفان گرم ہے۔ ظاہری صورتحال کو ديکھ کر ہر طرف غلط فہمياں پھيل رہی ہيں۔ حضرت علی ان کے خلاف تلواراٹھا نہيں سکتے کہ بلوائی بڑی تعداد ميں تھے۔ دوسری طرف ان لوگوں کو سيدنا علی کے ساتھ ہونا وہ چيز تھی جس سے ديگر علاقوں ميں موجود صحابہ کرام ميں غلط فہمیاں پيدا ہونا شروع ہوگئيں۔ ايک طرف سے قصاص کا مطالبہ تھا اور دوسری طرف حضرت علی کا مطالبہ تھا کہ پہلے ميری بيعت کرواور مجھے مضبوط کرو تاکہ ميں قصاص لے سکوں۔ ان حالات ميں سيدہ عائشہ، حضرت زبير اور حضرت طلحہ کا مشترکہ لشکر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصاص کے لیے نکلا۔ مگر جنگ سے قبل ہی حضرت علی نے انھيں اس بات پر قائل کرليا کہ حضرت علی کی بيعت کرلی جائے اور اس کے بعد قصاص لیا جائے۔ يہ صورتحال بلوائيوں کے لیے انتہائی خوفناک تھی۔ چنانچہ انھوں نے صبح ہونے سے قبل ہی انھوں نے اندھيرے ميں سيدہ عائشہ کے لشکر پر حملہ کرديا۔ جس سے دوسری طرف يہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ايک دفعہ جنگ چھڑ جائے تو بات سمجھنے سمجھانے کا موقع نہيں رہتا۔ يہی اس موقع پر ہوا۔

قرآن پاک اور تاريخ کی اس روشنی ميں آپ يہ تجزيہ درست نہيں کہ صحابہ کرام کی ان جنگوں ميں سے کسی ايک فريق کا غلط ہونا ضروری ہے۔اصل مسئلہ بلوائيوں کا تھا جنھوں نے ہر قسم ميں جھوٹ، منافقت، فريب اور دغا سے کام لے کر يہ فساد پھيلايا۔

باقی جہاں تک واقعہ کربلا کا تعلق ہے تواس بارے ميں آپ نے جن خيالات کا اظہار کیا ہے وہ تاريخ کو ديکھنے کے بہت سے زاويوں ميں سے ايک زاويہ ہے۔ اس واقعے ميں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے تربيت يافتہ صحابہ ميں سے کوئی شريک نہ تھا، اس لیے صحابہ کرا م کے حوالے سے جو سوال آپ نے اٹھايا ہے وہ يہاں پيدا نہيں ہوتا،اس ليے ہم اس پر کوئی تبصرہ نہيں کريں گے۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-04

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading