سوال
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ میرے اس سوال پر
مجھے معاف فرمائے۔ میں یہ سوال آسانی سے نہیں اٹھا رہا۔ مگر ایک طالب علم
ہونے کے اعتبار سے جاننا ضروری ہے۔ میں
یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے شرک کرنے کے معاملہ میں اتنے حساس
کیوں ہیں۔ وہ اپنی عبادت ہی کرنے پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں۔ میں یہ
سمجھتا ہوں کہ ایک شکر گزار انسان کے طور پر ہمیں شرک نہیں کرنا چاہیے۔ مگر
اللہ تعالی تو ہماری طرف سے اس طرح کی کسی شکر گزاری کے محتاج نہیں ہیں۔
اگر ایک انسان جو مجھ پر احسانات کرے اور پھر اس پر کسی شکرگزاری کی توقع
نہ کرے تو اسے بہت بڑا کہا جائے گا۔اللہ تعالی شرک معاف نہیں کرتا۔ وہ تو
ان لوگوں کو بھی سزا کی وعید سناتا ہے جو اس کی عبادت تو کریں مگر اس کے
ساتھ ساتھ اسی کے کسی پیارے پیغمبر سے محبت میں آگے بڑھ جائیں۔ اتنی سختی کیوں؟ اللہ تعالی شرک معاف کیوں نہیں کر سکتے؟
جواب
آپ کے طویل سوال کا خلاصہ اگر کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ کا شرک کی سخت مذمت کرنا، اس سے بچنے کے مطالبے پر اصرار کرنا، اس پر سزا مقرر کرنا دو وجوہات سے درست نہیں لگتا۔ ایک یہ کہ یہ احسان کرکے بدلہ چاہنے کا عمل ہے جو کہ اعلیٰ اخلاقیات کے خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ اپنے شرکا کے مقابلے میں اپنی ذات کے بارے میں حساس ہونا کمزوری کی علامت ہے۔اس لیے میں آپ کے سوال کو گستاخی نہیں بلکہ آپ کی اﷲ تعالیٰ سے وہ محبت ہی خیال کرتا ہوں جس میں ہم اپنے رب کو ہر لحاظ سے مکمل اور بے عیب دیکھنا چاہتے ہیں۔
آپ نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ ایک سوچنے والے شخص کے ذہن میں پید ا ہوسکتے ہیں، تاہم معاملے کو اگر درست جگہ سے دیکھا جائے تو اصل حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے۔آپ جس جگہ سے سے اس معاملے کو دیکھنے رہے ہیں وہ موجودہ دنیا اور اس کے قوانین کے اندر رہ کر اس معاملے کوسمجھنا ہے۔اس فریم آف ریفرینس میں رہ کر مذکورہ بالا اعتراضات بالکل پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم یا اﷲ تعالیٰ جس پس منظر میں کلام فرماتے ہیں وہ آخرت کاپس منظر ہے۔اسے اگر آپ سمجھ لیں گے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کیوں قرآن مجید شرک کے معاملے میں اتنا حساس ہے۔
دیکھیے ہماری موجود دنیا میں شرک کرنا یا نہیں کرنا ایک اخلاقی معاملہ ہے۔تاہم آنے والی آخرت کی دنیامیں یہ کوئی اخلاقی معاملہ نہیں رہے گا بلکہ دیگر تمام اخلاقی معاملات کی طرح اس کی مادی سزا و جزا برپا کی جائے گی۔موجودہ دنیاکے ہمارے اخلاقی رویے اُس دنیا میں اپنے خیر کی بہترین جزا اور شر کی بدترین سزا پائیں گے۔ شرک کو ایک لمحے کے لیے چھوڑدیجیے اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک یا بدسلوکی کا معاملہ لے لیجیے۔ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ اگر حسن سلوک کریں گے تو خدائی ضابطے کے مطابق ہم قیامت کے دن جزا کے مستحق ہوں گے۔جبکہ ان سے بدسلوکی کا بدلہ عذاب ہے۔ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیوں کرنا چاہیے، ان کے کیا احسانات ہوتے ہیں، وہ کتنے اعلیٰ ظرف اور ضرورت مند ہیں یا نہیں، اس سب سے قطع نظر جس آزمائش میں ہم کھڑے ہیں اس میں اس عمل کی سزاو جزا نکلنی ناگزیر ہے۔
ایسے میں اگر والدین اولاد کو حسن سلوک پر توجہ دلائے تو اس کا ایک پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ ان کو اس کی کتنی ضرورت ہے یا نہیں یا انہیں اخلاقی طور پر اس مطالبے کا کتنا حق ہے یا ہیں، مگر دوسری ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ اگر اولاد اگر بدسلوکی کرے گی تو اس کا لازمی نتیجہ جہنم کی آگ کی شکل میں نکلے گا۔چنانچہ ایک شفیق باپ اپنی اولاد کو اگر اس معاملے میں توجہ دلاتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے۔
یہی وہ دوسرا پہلو ہے جس کی بنیاد پر اﷲ تعالیٰ بار بار شرک سے لوگوں کو روکتے ہیں۔یعنی یہ ان کی ضرورت نہیں بلکہ شفقت ہے جس کی بنا پر وہ لوگوں کو شرک سے روکتے ہیں۔ کیونکہ انسان اس دنیا میں جس آزمائش میں ہے اس میں وہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ یہی معاہدہ کرکے آیا ہے کہ وہ تمام اخلاقی مطالبات پر اپنی مرضی واختیار و ارادے سے عمل کرے گا۔چاہے ان اخلاقی معاملات کا تعلق اﷲ تعالیٰ سے ہو یا اس کے بندوں سے۔ اﷲ تعالیٰ کی بندگی اور تنہا اس کی بندگی چونکہ سب سے بڑا اخلاقی خیر ہے ، اس لیے اس کی خلاف ورزی کی سزا بھی بہت بڑی ہے۔اب ظاہر ہے دوسرے اخلاقی رویو ں کی طرف بھی اﷲ تعالیٰ ہی نے توجہ دلانی ہے اور تنہا ایک معبود کی پرستش کی طرف توجہ دلانا بھی ان ہی کا کام ہے۔گویا پچھلی مثال سے یہ یوں سمجھیں کہ باپ کے سوا کوئی توجہ دلانے والا گر ہے ہی نہیں تو باپ دوسری اچھی باتیں بھی بتاتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔یعنی اصل بات یوں نہیں کہ اپنے معاملے کو خود اٹھایا جارہا ہے بلکہ ایک خیر پر توجہ دلانے والا چونکہ کوئی دوسرا ہے ہی نہیں تو بہرحال اسی کو توجہ دلانی ہوگی جس کا یہ کام ہے۔ چاہے اس معاملے کا تعلق اس کی اپنی ذات ہی سے کیوں نہ ہو۔ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کسی شرم کی وجہ سے یا اپنا معاملہ سمجھ کر باپ کو ہرگز نہیں رکنا چاہیے کیونکہ وہ ایسا کرے گا تو بچہ مارا جائے گا۔ یہ معاملہ اﷲ تعالیٰ کا ہے کہ وہ اپنی بے نیازی کی وجہ سے اگر شرک کی مذمت سے رک جائیں گے تو چونکہ ان کے سوا ہدایت دینے والا اور درست بات بتانے والا کئی نہیں اس لیے ایسی صورت میں مخلوق تو ماری جائے گی۔ اس لیے وہ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی مخلوق کو بچانے کے لیے شرک کی برائی بیان کرتے ہیں۔
میرے بھائی اس پہلو سے آپ دیکھیں گے تو آپ کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی محبت کئی گنا بڑھ جائے گی کہ اس جیسی اعلیٰ ہستی جسے کسی کی بندگی اور عبادت کی ضرورت ہی نہیں وہ ہمیں بچانے کے لیے ہمارے جیسے گھٹیا لوگوں کے یہ الزام بھی سہہ رہا ہے کہ خدا کیسی ہستی ہے کہ احسان کرکے بدلہ چاہتا ہے ۔ اﷲ اکبر۔ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ جس ہستی کے احسانات میں ہمارا روا ں رواں دبا ہوا ہے، جس کے کرم کے بغیر ہم سانس نہیں لے سکتے، جس کی عنایت کے بغیر ہم پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں گے، جس کی توجہ کے بغیر بھوک ہمیں کچل ڈالے گی، دھوپ جھلسادے گی، ٹھنڈ جمادے گی؛اس ہستی کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ میرے ٹکڑوں پر پلنے والوں میرے سوا کسی اورکے احسان مند مت ہونا۔تاہم یہ ہوا اور اتنے بڑے پیمانے پر ہوا کروڑوں اربوں انسانوں پر مشتمل انسانیت گنتی کے چند لوگوں کے سوا ہمیشہ غیر اﷲ کی محبت، حمد،بندگی اور محبت میں جیتی رہی۔ انسانوں نے ہر دور میں سب سے بڑھ کر اسی اخلاقی مطالے کو پامال کیا ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کو اس معاملے میں بار بار شدت سے توجہ دلانی پڑی۔یہی اس سوال کا جواب ہے کہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کی بندگی پر اتنا زور کیوں ہے۔یہ اس لیے ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ اسی اخلاقی مطالبے کی پامالی ہوئی ہے۔آج اگر سب لوگ توحید پر پوری طرح قائم رہتے ہیں اور مثال کے طور پر ماں باپ کے حقوق میں بہت ڈنڈی مارتے ہیں تو آج کا ایک مصلح توحید پر گفتگو بہت کم کرے گا اور بار بار ماں باپ کے حقوق کی طرف توجہ دلائے گا۔
یہ دو پہلو اگر آپ پر واضح ہیں یعنی ایک یہ کہ لوگ سب سے زیادہ ڈنڈی توحید و شرک کے معاملے میں مارتے رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ توحید و شرک دیگر اخلاقی مطالبات کی طرح آخرت میں ایک مادی وسزا میں ناگزیر طور پر ڈھلے گا تو پھر آپ پر واضح ہوجائے گا کہ کیوں اﷲ تعالیٰ نے شرف کے بچنے پر اتنا اصرار کیا ہے ۔
آخر میں اس بات کو بھی میں واضح کردوں جو آپ نے اپنے ای میل میں اٹھائی ہے کہ کیوں اﷲ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کریں گے ۔ اس کی وجہ دراصل انسانوں کی اﷲ تعالیٰ کے متعلق پھیلائی ہوئی یہ غلط فہمی ہے کہ ہم کچھ بھی کرلیں اﷲ تعالیٰ معاف کردیں گے۔اس بات کو اگر سمجھنا ہے تو مسیحیت کی تاریخ پڑھیے کہ وہ ایک طرف اﷲ تعالیٰ کی محبت کی غیر معمولی تصویر کھینچتے ہیں اور دوسری طرف پورے اطمینان سے اﷲ کے رسول کو اس کا بیٹا بناکر اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔’’محبت ‘‘کی ایسی شراپ پی کر مدہوش ہوجانے والوں کو ہوش میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنا قانون بتایا جائے اور ان کی غلط فہمی کی تردید کی جائے۔یہ بہت بڑی گمراہی اور غلط فہمی کی تردید ہے اور بے خوفی کے بدترین رویے سے لوگوں کو ہوش میں لانے کی ایک حکیمانہ تدبیر ہے۔
امید ہے کہ بات واضح ہوگئی ہے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-10-27