صحابۂ کرام کا رول

32

سوال

مجھے صحابۂ کرام کے حوالے سے کچھ Confusion لاحق ہو گیا ہے ، جس کے سلسلے میں آپ سے وضاحت درکار ہے۔ ہوا یوں کہ ایک پروگرام میں جب ڈاکٹر ذا کر نائک سے یزید اور جنگِ کربلا کے بارے میں سوال کیا گیا، تو اُنہوں نے یزید کے لیے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کیے اور جنگِ کربلا کو ایک سیاسی لڑ ائی قرار دیا۔مجھے یہ سن کر بہت جھٹکا لگا کیونکہ ہم بچپن سے یہ سنتے آ رہے ہیں کہ یزید ایک ملعون اور ظالم شخص تھا اور کربلا کا واقعہ حق و باطل کی ایک جنگ تھی۔مسلم کمیونٹی میں بھی اس بات پر شدید ردِعمل سامنے آیا اور ڈاکٹر ذا کر نائک کے بارے میں کہا جانے لگا کہ وہ اگرچہ ’تقابلِ ادیان‘ کے موضوع کے ایک اچھے طالبعلم ہیں لیکن وہ اسلام کے ایک اچھے اور بڑ ے ا سکالر نہیں ہیں۔ میں نے خود بھی یہی محسوس کیا، لیکن پھر مجھے خیال ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص ’تقابلِ ادیان‘ کے موضوع پر تو سند کا درجہ رکھتا ہو، لیکن اپنے مذہب سے اچھی طرح واقف نہ ہو ، اس طرح میرا کنفیوژن کافی بڑ ھ گیا اور میں نے ذاتی طور پر اس ٹاپک پر تحقیقی مطالعہ کا ذہن بنایا۔ اس سلسلے میں میں نے اس موضوع پر مختلف نقطۂ نظر سے لکھی گئی کافی کتابیں پڑ ھ ڈالیں۔ سب سے پہلے کسی کے بتانے پر میں نے مولانا مودودی کی کتاب ’خلافت و ملوکیت‘ کا مطالعہ کیا ، جس میں یہ تأثر دیا گیا تھا کہ حضرت امیر معاویہ اور یزید ایک ہی سطح و مزاج کے لوگ تھے اور دونوں ہی کی وجہ سے اسلام اور اہلِ اسلام کو نقصانات پہنچے ، جبکہ حضرت علی اور امام حسین نے اسلام کا دفاع کیا۔ا س کے بعد کسی کے بتانے پر میں نے محمود احمد عباسی کی کتاب ’خلافتِ معاویہ و یزید‘ دیکھی ، جس کے پڑھنے کے بعد تأثر یہ بنا کہ حضرت معاویہ نے تو اصل میں اسلام کا دفاع کیا اور یزید بھی ایک ۔۔۔۔۔۔۔ شخص تھا۔جبکہ حضرت علی اور امام حسین کا مؤقف صحیح نہیں تھا۔میری پریشانی اور کنفیوژن دگنی ہوگئی۔ پہلے مجھے امیر معاویہ اور یزید کے بارے میں شکوک لاحق ہوئے تھے تو اب میں حضرت علی اور امام حسین کے بارے میں شبہات میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اسی دوران ایک نیا مسئلہ یہ سامنے آیا کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے حضرت علی کے حوالے سے الکوحل کی ممانعت پر مشتمل ایک روایت بیان کی تو اُس پر بھی مسلمان کمیونٹی اُن کے خلاف بھڑ ک اٹھی۔اس موضوع پر میں نے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے لیکچرز بھی سنے ، پریشانی مزید بڑ ھ گئی کیونکہ انہوں نے تو حضرت علی کو ایک ما فوق الفطرت ہستی کی حیثیت سے پیش کیا اور ا س کے دلائل بیان کیے تھے۔ ان سب باتوں نے مل کر مجھے تو بہت ہی کنفیوژ کر دیا ہے اور میں صحابۂ کرام کے حوالے سے عجیب قسم کی پریشانی اور بے اطمینانی میں مبتلا ہو گیا ہوں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ کس کی اقتدا کی جائے اور کس کی نہیں؟ کس کے مؤقف کو درست سمجھا جائے اور کس کے مؤقف کو نا درست؟ لہٰذا براہِ مہربانی اس سلسلے میں میری رہنمائی کر دیجیے؟

جواب

اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحابۂ کرام کی حیثیت کیا ہے ، دین کی خدمت میں ان کا کردار اور ان کی عمومی سیرت و کردار کیا ہے ، ان چیزوں کو قرآن کریم نے موضوع بنا کر بیان کر دیا ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’تم بہترین امت ہوجولوگوں (کی رہنمائی)کے لیے مبعوث کیے گئے ہو، معروف کاحکم دیتے ہو، منکرسے روکتے ہواوراللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران3: 110)

’’اورجولوگ ایمان لائے ، ہجرت کی اوراللہ کی راہ میں جہادکیا، اوروہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اورمددکی، یہی لوگ پکے مومن ہیں ۔ان کے لیے مغفرت اورباعزت روزی ہے ۔‘‘ (انفال8: 74)

’’اوراللہ کی راہ میں جدوجہدکروجیساکہ اس کاحق ہے ۔اسی نے تم کوبرگزیدہ کیا اوردین کے معاملے میں تم پرکوئی تنگی نہیں رکھی۔ تمھارے باپ۔ابراہیم۔کی ملت کو(تمھارے لیے پسندفرمایا)۔اسی نے تمھارا نام مسلم رکھا، اس سے پہلے ۔اوراس(قرآن)میں بھی (تمھارا نام مسلم)ہے ۔تاکہ رسول تم پراللہ کے دین کی گواہی دے اورتم دوسرے لوگوں پراس کی گواہی دو۔اورنمازکا اہتمام رکھواورزکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کومضبوط پکڑ و۔وہی تمھارامرجع ہے اورکیاہی خوب مرجع اورکیاہی خوب مددگار ہے !‘‘ (حج22: 78)

’’محمد، اللہ کے رسول، اورجوان کے ساتھ ہیں وہ کفارپرسخت، آپس میں رحم دل ہیں ۔تم ان کواللہ کے فضل اوراس کی خوشنودی کی طلب میں رکوع وسجودمیں سرگرم پاؤگے ۔ان کا امتیازان کے چہروں پر سجدوں کے نشان سے ہے ۔ان کی یہ تمثیل تورات میں ہے ۔ اورانجیل میں ان کی تمثیل یوں ہے کہ جیسے کھیتی ہوجس نے نکالی اپنی سوئی، پھراس کوسہارادیا، پھروہ سخت ہوئی، پھروہ اپنے تنہ پرکھڑ ی ہوگئی کسانوں کے دلوں کوموہتی ہوئی تاکہ کافروں کے دل ان سے جلائے ۔اللہ نے ان لوگوں سے جوان میں سے ایمان لائے اورجنھوں نے نیک عمل کیے مغفرت اورایک اجرعظیم کاوعدہ کیا ہے ۔‘‘

(فتح48: 29)

یہ آیات صحابۂ کرام کے بارے میں ہر قسم کے شک و شبہ اور کنفیوژن کا خاتمہ کر دیتی ہیں ۔ یہ بتاتی ہیں کہ وہ صحابہ اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ لوگ تھے جن پر اللہ کے رسول نے دین کی شہادت دی اور پھر یہ صحابہ کا منصب تھا کہ وہ دنیا تک اس دین کو پہنچانے والے بنے ۔اسی طرح یہ بھی ہمیں معلوم ہوا کہ یہ لوگ بے مثل سیرت و کردار کے لوگ تھے جو اللہ اور بندوں کے حقوق پوری طرح سمجھتے تھے ۔تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کریم واقعتاً ایسے ہی لوگ تھے ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر طرح کے حالات میں بھرپور ساتھ دیا اور آپ کے بعد خلافتِ راشدہ کے دور میں اس دور کی پوری متمدن دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچادیا۔

یہ سب کچھ بہت ہی مختصر عرصے میں رو نما ہوا۔ آپ اندازہ کیجیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف پندرہ بیس برس کے اندر وسط ایشیا سے لے کر شمالی افریقہ اور بلوچستان سے لے کر شام و عراق تک لاکھوں مربع کلومیٹر کا علاقہ اسلام کے دائرے میں آیا اور وہاں رہنے والے کروڑ وں لوگ اسلام کی روشنی میں داخل ہوگئے ۔تاہم حضرت عثمان کے دورِ خلافت تک دو غیر معمولی تبدیلیاں رو نما ہو چکی تھیں ۔ ایک یہ کہ ابتدائی اسلام لانے والے مسلمانوں اور اکابرین صحابہ کی ایک بڑ ی تعداد کا انتقال ہو چکا تھا۔دوسرے لاکھوں کروڑ وں کی تعداد میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ ابھی غیر تربیت یافتہ تھے۔ وہ ایک برتر مذہب کی حقانیت کے قائل تو ہوگئے تھے ، مگر اپنی قدیم تہذیوں ، مذاہب اور رسوم و عادات کا رنگ ان پر سے ابھی پوری طرح نہیں اترا تھا۔

یہ وہ صورتِ حال تھی جس سے فائدہ اٹھا کر کچھ فتنہ پرور لوگوں نے جو بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑ ھے ہوئے تھے ، فساد پھیلانا شروع کر دیا۔ انہوں نے افوا ہوں اور غلط فہمیوں کا ایک بازار گرم کر کے دور دراز صوبوں کے بعض لوگوں کو خلیفۂ وقت سیدنا عثمان کے خلاف کر دیا۔ یہ لوگ حج کے بہانے مصر ، کوفہ اور بصرہ سے نکلے اور مدینہ کے ارد گرد جمع ہوگئے ۔ سیدنا عثمان اسے محض اپنے خلاف لوگوں کی ذاتی شکایت سمجھتے رہے ، اسی لیے انہوں نے کوئی سخت اقدام نہ کیا۔وہ ان لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا مخلص مسلمان سمجھتے رہے تاہم یہ لوگ اصلاً فسادی تھے ۔ آخر کار ان فسادیوں نے سیدنا عثمان کو شہید کر دیا۔

یہ وہ اندوہناک واقعہ ہے جس کے بعد معاملا ت پر کسی کا بھی اختیار نہ رہا۔دراصل ان فسادیوں نے عام لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے تین جلیل القدر صحابہ کا نام استعمال کیا تھا۔یعنی حضرات طلحہ، زبیر اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین۔ پھر سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد ان بلوائیوں نے اعلان کر دیا کہ اہل مدینہ دو دن میں خلفیہ منتخب کر لیں وگرنہ ان تینوں بزرگوں کو شہید کر دیا جائے گا۔ان حالات میں سیدنا علی خلیفہ بنے اور دیگر لوگوں کے ساتھ بلوائیوں نے بھی ان کی بیعت کر لی۔ اس کے بعد غلط فہمیوں اور عدمِ اعتماد کی ایک ایسی فضا نے جنم لیا جس میں معاملات بگڑ تے چلے گئے ۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں ایک طویل عرصے تک مسلمان خانہ جنگی کا شکار رہے ۔

اس پوری صورتِ حال پر اگر تفصیل سے غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس معاملے کی ذمہ داری صحابۂ کرام پر نہ تھی۔ ملکوں اور سلطنتوں کے معاملات دو تین لوگوں سے نہیں چلتے ۔اسلام کی اصل طاقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابۂ کرام تھے ۔ حضرت عثمان کے ابتدائی زمانے تک ان کی بڑ ی تعداد یا تو طبعی عمر کو پہنچ کر رخصت ہو چکی تھی یا جنگوں میں شہید ہو چکی تھی۔ایسے میں چند فتنہ پرور لوگوں نے اپنی تہذیب اور مذہب کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے منافقت کی راہ اختیار کی۔ انہوں نے بظاہر اسلام قبول کیا اور سیاسی اختلافات کی آڑ میں فساد پھیلادیا۔غیر تربیت یافتہ نومسلموں اور نوجوانوں میں ان کی باتیں مقبول ہوگئیں اور نتیجہ وہ نکلا جو اوپر بیان ہوا۔

قرآن اور تاریخ کی روشنی میں صحابہ کرام کی جو بنیادی ذمہ داری اور کام ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ انہی کے ذریعے سے ہم تک دین پہنچا۔یہ ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے اس ذمہ داری کے حوالے سے اوردین کے معاملے میں ان کی شخصیت ہر طرح کے سوال سے بلند ہے ۔اِن میں سے ہر شخص دین کے معاملے میں جب کچھ بیان کرتا ہے تو وہ اسے پوری دیانت داری کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔تاہم یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ قرآنِ کریم نے کہیں یہ بیان نہیں کیا کہ صحابہ کرام معصوم عن الخطا ہیں یا انفرادی طور پر ان کے افعال کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ خاص تحفظ حاصل ہے جو نبیوں کو حاصل ہوتا ہے ۔چنانچہ اس بنیاد پر لوگوں نے دورِ فتنہ میں ، جس کا ذکر اوپر تفصیل کے ساتھ ہوا، اکابر صحابہ کی بعض سیاسی حکمت عملیوں پر سوال اٹھائے ہیں ۔آپ نے جن محققین کے نام لکھے ہیں ان کے کام کی حیثیت یہی ہے ۔ اس کا کوئی تعلق صحابہ کے دینی رویے یا دین کے ابلاغ سے نہیں ہے ۔ دینی معاملات میں تمام صحابہ عدل پر قائم ہیں ۔البتہ سیاسی معاملات میں ان کا طرزِ عمل گرچہ اخلاص پر مبنی ہے جس میں کسی بدنیتی کا کوئی شائبہ نہیں ، لیکن بہرحال وہ ایک سیاسی رہنما کے اقدامات ہیں ۔اس لیے دینی حیثیت سے نہیں ، بلکہ سیاست کے طالبعلموں کے لیے ان اقدامات کا جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔لیکن یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ قدسیوں کی اس جماعت اور خاص کر اکابر صحابہ کی سیرت و کردار اور ان کی عدالت پر قرآن خود گواہ ہے ، اس لیےکوئی ایسا جائزہ درست نہیں ہو سکتا جو ان کی سیرت و کردار کو مجروح کرنے کی کوشش کرے ۔ہمارے لیے یہ ماننا زیادہ معقول ہے کہ تاریخ میں کچھ باتیں غلط درج ہوگئی ہیں بجائے اس کے کہ ہم یہ مانیں کہ قرآن پاک میں صحابۂ کرام کے متعلق جو بات آئی ہے وہ غلط ہے ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-16

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading