سوال
1۔ کون سی قرآنی آیات یا احادیث یہ بیان کرتی ہیں کہ اس دنیا میں انسان جو اعمال کرتے ہیں وہ ریکارڈ کیے جا رہے ہیں؟
2۔ دو فرشتوں کے دفتر کے علاوہ انسانی اعمال کے ریکارڈ کرنے کے کون سے ممکن ذرائع (تحریر، تصویر اور آواز) زیر استعمال ہیں؟
3۔ اس دنیا میں ایسی کون سی جگہ ہو سکتی ہے جہاں ہمارے ہر عمل کو لکھا یہ ریکارڈ کیا جا سکتا ہے؟ فرشتوں کے لکھنے کے علاوہ ہمارے اعمال کہاں کہاں محفوظ ہونگے؟
4۔ کیا انسان کسی طرح اس ریکارڈ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا قرآن و حدیث نے اس جانب کوئی اشارہ کیا ہے؟
5۔ کیا اسلامی فلسفہ اس ریکارڈ تک رسائی کا قائل ہے؟
6۔ جب ایک انسان توبہ کر لیتا ہے تو پھر اس ریکارڈ پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟
7۔ حج کرنے سے گناہ صاف ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کا موجود ریکارڈ پر کیا اثر ہوتا ہے؟
8۔ ایک غیر مسلم کا اسلام میں داخلہ اس ریکارڈ پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟
9۔ ریکارڈ کا یہ سارا انتظام انسانی معاشرہ پر کیا معاشی، اخلاقی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے؟
10۔ اگر انسان یہ ریکارڈ مستقبل میں حاصل کر سکتے ہیں تو پھر آپ کے خیال میں اس سے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے فائدہ میں اسے کیسے بہتر استعمال کیا جا سکتا ہے؟
11۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہاتھ کی لکیروں کا کیا کردار ہے؟
12۔ کراما کاتبین کا کیا کردار ہے؟
13۔ توبہ کا انسانی روح اور زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے؟
14۔ حج کا انسانی روح اور زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے؟
جواب
آپ کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں:
سوال نمبر 1تا5، 10،12
آپ کے یہ تمام سوالات اس حوالے سے ہیں کہ انسانوں کے اعمال کس طرح ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور ان تک رسائی کس طرح ممکن ہے۔ اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ قرآن مجید اس بات کو باربار واضح کرتا ہے کہ انسان اس دنیا میں امتحان کے لیے آیاہے ۔موت کے بعد ایک روز وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوگا۔ وہاں اس کے اعمال کو پرکھا جائے گااور انہیں کی بنیاد پر اس کی جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا ۔اس لیے ضروری ہے کہ جن اعمال کی بنیاد پر اس کی پرسش ہونی ہے ان کا کا ریکارڈ رکھا جائے ۔چناچہ قرآن مجید اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انسان جوکچھ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے انتہائی معزز فرشتے اس کا مکمل ریکارڈ رکھتے ہیں اور قیامت کے دن یہی ریکارڈ اس کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ جہاں وہ اپنے ایک ایک قول فعل کو خواہ چھوٹا ہو یا بڑا موجود پائے گا۔ یہ تفصیلات سورہ کہف آیت 49، سورہ ق آیت 16-18، سورہ انفطرآیت 10تا12،سورہ مطففین آیت 8تا9اورآیت 20تا21 اور قرآن کے بعض دیگر مقامات میں بھی بیان ہوا ہے۔
یہ ریکارڈ عملاً کس طرح اور کہا ںرکھاجاتا ہے اس کے بارے میں کوئی تفصیلات ہمیں نہیں ملتی۔ نہ اس بات ہی کا کوئی بیان ہے کہ انسان ان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں ۔بلکہ عقل عام کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پھر توہرمجرم اپنے ریکارڈ کو تلف کرنے کی کوشش کرے گا۔ قرآن کے اپنے بیانات سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ فرشتوں کی قوت و جبروت کے آگے انسانوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔ نہ انسان ان سے کسی قسم کا ریکارڈ چھین سکتے ہیں، نہ انہیں رشوت دی جاسکتی ہے اور نہ کسی اور طرےقے سے انہیں متاثر کیاجاسکتا ہے۔
سوال نمبر 6،7،8،13،14
سچی توبہ، حج مبرور اور قبول اسلام بلاشبہ ایسے اعمال ہیں جو انسان کے سابقہ گناہوں کو ختم کردیتے ہیں ،لیکن نامہ اعمال سے ان کے نتیجہ میں گناہ کس طرح ختم ہوجاتے ہیں، اس کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ ہمیں اجمالی طور پر ان چیزوں پر ایمان لے آنا چاہیے ۔ دراصل یہ سارے معاملات امور غیبی ہیں جن کی حقیقت ہم اس دنیا میں نہیں جان سکتے ۔ایسے ہی ایک معاملے میں جب کفار نے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ واضح کیا کہ تم انسانوں کو بہت تھوڑا علم ہی دیاگیا ہے ،(بنی اسرائیل آیت 85)۔ یہ علم اس بات کے لیے تو کافی ہے کہ ہم توحید اور آخرت اور فرشتوں وغیرہ پر ایمان لائیں اور ان کی نوعیت کو سمجھ لیں لیکن ان کی حقیقت تک پہنچا، انسان کے لیے اس کے موجودہ علم کے ساتھ ممکن نہیں۔
سوال نمبر 9
اللہ تعالیٰ نے جب قرآن میں یہ بات بیان کی کہ فرشتے ان کے نامہ اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں تو اس کا مقصد صرف یہی ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہوکر زندگی نہیں گزاریں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا آج کل سپر مارکیٹ وغیرہ میں ہوتا ہے کہ جگہ جگہ کیمرے لوگوں کی ریکارڈنگ کررہے ہوتے ہیں۔ اور ہر شخص کو یہ احساس رہتا ہے کہ اگر اس نے کوئی چیز چرائی تو وہ قانون کی گرفت میں آجائے گا ۔اس کے نتیجہ میں انسان ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا کہ قانون کی گرفت میںآجائے۔
سوال نمبر11
قرآن میں اس حوالے سے کوئی بات بیان نہیں ہوئی ہے ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-15