سوال
میں ‘youtube’ پر غامدی صاحب کو سن رہا تھا۔ ايك سوال كے جواب ميں انھوں نے كہا کہ معراج كا واقعہ اصل ميں خواب تھا۔ یہ اصل میں جسمانی سفر نہيں تھا ۔ ميرے علم ميں قرآن مجيد میں ،خاص طور پر ،سورہ نجم میں فرمایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے تھے اور انھوں نے سب کچھ دیکھا۔ وضاحت فرمائيے۔
میرا دوسرا سوال عورتوں کی امامت کے بارے میں ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک عورتیں مرد مقتديوں كی امام ہو سکتی ہیں۔ کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ جب تمام مرد اور عورتیں اکٹھے نماز پڑھ رہے ہوں ان ميں نامحرم مرد اور عورتیں بھی ہوں گے۔ ان کی نظر ایک دوسرے پر پڑے گی تو اس طرح ان کی نماز خراب ہو گی۔ اس طرح عیسائیت اور اسلام میں کیا فرق رہ گیا؟ میرا خیال یہ ہے کہ مرد اور عورتيں صرف اس صورت ميں ساتھ نماز پڑھ سكتی ہیں جب عورتيں پردے ميں ہوں ۔ ایک حدیث میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم دوسرے لوگوں (غير مسلموں) کی روایات پر عمل کرو گے تو ان جیسے بن جاؤ گے۔ ان کے ہاں عورتوں اور مردوں کو اکٹھے نماز پڑھنے کی اجازت ہے ۔ اسلام عورت کو اکیلے میں نماز پڑھنے کی تاکید کرتا ہے اور یہی ان کے لیے بہتر بھی ہے ۔ جمعہ کی نماز البتہ عورتوں کو بھی مسجد میں پڑھنی چاہیے لیکن مردوں سے علیحدہ-
ميرا تیسرا سوال حجاب کے بارے میں ہے۔ کیا آپ كے نزديك سر کو ڈھانپنا عورت پر فرض نہيں ہے؟ اگر انھوں نے زیورات نہ بھی پہنے ہوں پھر بھی ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنا سر ڈھانپ کر رکھیں۔ سورہ احزاب میں دئے گئے پردے کے احکام كے بارے ميں غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ صرف مدینہ کی عورتوں کے لیے ہیں کہ وہ غیر محرم مردوں سے پردہ کریں۔ کیا آپ كے نزديك قرآن کے اندر موجود ہدایات ہمیشہ کے لیے نہيں ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اگر عورت کسی کھلی جگہ پہ ہو ں تو ظاہر ہے کہ وہاں ہر قسم کے مرد ہوتے ہیں جن میں جاہل اور گنوار بھی ہوسكتے ہیں۔ عورتوں پر فرض ہے کہ وقت اور ماحول کی مناسبت سے اپنے سر دوپٹہ وغيرہ سے ڈھانپ لیا کریں۔ یہ تین نقاط ہیں جن کے بارے میں مجھے غامدی صاحب سے اتفاق نہیں ہے۔ برائے مہربانی آپ میرے ان سوالات کے جواب ارسال کریں تا کہ عورتوں کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے ان کی مدد کر سکوں۔
جواب
آپ کے سوالات کے جواب حسبِ ترتیب درج ذیل ہیں۔
١)معراج سے متعلق استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سورہ بنی اسرائیل (17:60) میں معراج کے واقعے کے لیے ”الرُّءْيَا” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ خواب کے ہوتے ہیں۔ قرآن کے اس بیان کی روشنی میں ہم مجبور ہیں کہ اس واقعے کو ایک خواب ہی کے معنوں میں لیں۔ تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ نبی کا خواب وحی ہوا کرتا ہے۔ اس میں جو حقائق بیان کیے جاتے ہیں وہ دن کی روشنی میں اور سر کی آنکھوں سے دیکھے جانے والے حقائق سے زیادہ سچے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے جب اس واقعے کی تفصیلات ميں دیکھنے ،دکھانے ، لے جانے اور کسی خاص جگہ پر موجود ہونے کے جو الفاظ بيان کیے ہيں وہ بلاشک و شبہ حقائق کا بيان ہيں۔سورہ نجم میں سدرۃالمنتہیٰ کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت جبرائیل کو دوسری دفعہ دیکھنے کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اسی حقیقت کا بیان ہے۔
آپ کے اگلے دو سوالوں کا جواب دینے سے پہلے ہم ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جو آپ کے خط کے بین السطور سے ہمیں محسوس ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ خواتین کے تحفظ، ان کی عزت اور عصمت اور مقاصد دين کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور احکام میں سختی کو ان مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ خواتين کی ناموس و تحفظ اور مقاصد دين کی اہميت کے معاملے ميں ہمارا نقطہ نظر بھی یہی ہے، ليکن اس مقصد کے لیے احکام ميں سخت موقف اختيار کرنا ہمارے نزديک درست نہيں۔ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی بات کو جیسا انھوں نے بيان کیاہے اسی طرح سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ یقین رکھیں کہ جتنا ہم اس کے صحیح مدعا کو پائیں گے اتنا ہی يہ ان مقاصد کے حصول میں زیادہ معاون ہوگا جو دین کو مطلوب ہیں۔ اس لیے کہ جس طرح يہ رويہ غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور شريعت کو چھوڑديا جائے اسی طرح بغير کسی دليل کے کسی مباح کو حرام کردينا بھی غلط ہے۔پہلا رويہ اگر مسيحی حضرات کاطريقہ رہا ہے تو دوسرا رويہ احکام دين کے معاملے ميں يہوديوں کی وہ شدت پسندی ہے جس پر قرآن مجيد ميں سخت تنقيد کی گئی ہے اوراسے وہ بوجھ اور طوق قرار ديا گيا ہے جن سے چھڑانے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم تشريف لائے تھے۔ اس تمہيد کے بعد آئیے ہم آپ کے باقی سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔
٢)عورتوں کی امامت سے متعلق جاوید احمد غامدی صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ مذہب کی قائم کردہ تہذیب کے خلاف ہے۔ البتہ شریعت میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کی حرمت پر دلالت کرسکے۔ آپ نے اپنی بات کی تائید میں اس حوالے سے جو کچھ فرمایا ہے وہ معاملے کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے کا نتیجہ ہے۔ آپ خود غور فرمائیے کہ اگر ایک ماں اپنے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی امامت کرے تو اس پر وہ اعتراضات وارد ہی نہیں ہوتے جو آپ نے اپنے خط میں بیان کیے ہیں۔ باقی جو روایت آپ نے اپنی بات کی تائید میں بیان کی ہے اس کا موقع و محل یہ نہیں ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔ یہ حدیث اس وقت کا بیان ہے جب سرزمین عرب میں اتمامِ حجت کے بعد کفار پر سزا کا نفاذ شروع ہوچکا تھا۔ اس وقت اگر کوئی شخص اسلام کو قبول کرنے کے بعد بھی کفر و شرک کی ظاہری علامات کو نہ چھوڑتا توصحابہ کرام کے لیے ممکن نہ ہوتا کہ وہ اسے کفار سے الگ شناخت کرسکيں۔ اس لیے اس بات کا اعلان کردیا گیا کہ جس شخص نے کسی قوم (یعنی یہود و نصاریٰ اور مشرکین جن پر اس وقت سزا کا نفاذ ہورہا تھا)کی مشابہت اختیار کی تو اس کو انہی میں سے سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ ان جيسا ہی معاملہ کیا جائے گا۔ اگر آپ اس روایت کو عام کریں گے تو مسلمان نہ انگریزی زبان بول سکیں گے، نہ پینٹ شرٹ پہن سکیں گے اور نہ ان کے جيسے گھروں میں رہ سکیں گے کیوں کہ ایسا کرنے کے بعد اس حدیث کی رو سے وہ یہود و نصاریٰ میں شامل سمجھے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ دین اس طرح کی کوئی بات نہیں کہتا۔
باقی رہی يہ بات کہ مساجد ميں خواتين کس طرح نماز پڑھيں اور کن نمازوں ميں آئيں يا نہ آئيں ، اس بارے ميں روايات ميں بہت سی تفصيلات ہيں جن سے يہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مساجد ميں عام نمازوں کے لیے آنا نہ آنا ان کی اپنی صوابديد پر تھا، گرچہ ان کے لیے گھر ميں نماز کو زيادہ موزوں قرر ديا گيا۔البتہ عيد کی نماز ميں خواتين کی حاضری پر بہت زور ديا گيا ہے۔ مساجد ميں نماز کے لیے خواتين کی کی صفيں الگ ہوا کرتی تھيں۔يہ اس باب ميں آنے والی روايات کا خلاصہ ہے ۔مسلمانوں کو آج بھی انہی روايات کی روشنی ميں اپنے عمل کی بنياد رکھنی چاہيے۔
٣)يہ بات واضح نہيں ہوسکی کہ آپ سر کی چادر سے متعلق سوال کررہے ہيں يا چہرے کے پردے سے متعلق ۔ سر چھپانے کے بارے میں استاذ گرامی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ بھی نبیوں کی قائم کردہ تہذیبی روایت کا ایک حصہ ہے اس لیے مسلم خواتین کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جہاں تک بات سورہ احزاب کی اس آیت کی ہے جسے آپ نے بیان فرمایا ہے اس کے متعلق يہ سمجھ ليجے کہ يہ آيت چہرے کے پردے کے حوالے سے زیرِ بحث آتی ہے سر چھپانے کے حوالے سے نہیں۔ اس آيت کے متعلق استاذ گرامی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ ایک خاص موقع و محل کی بات ہے جہاں مسلم خواتین کو ایذا رسانی سے بچانا مقصود تھا۔ آیت کے اندر ‘ذلك ادنی ان يعرفن فلايؤذين’ (یہ اہتمام اس بات سے قریب تر ہے کہ وہ خواتین پہچان لی جائیں گی، پھر انہیں اذیت نہ دی جائے گی) کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ خاص موقع و محل کی بات ہے۔يہ وہ حالات تھے جن میں خواتین کے لیے ایذا کا ماحول تھا اور آيت ميں انہیں ايک ايسے انداز کو اختيار کرنے کی تلقين کی گئی جس سے ان منافقين کا عذر ختم ہوجاتا جو بہانے بناکر خواتين کو تنگ کررہے تھے اور ا س کے بعد ان کے خلاف کاروائی کے لیے مسلمانوں کو ايک جواز مل جاتا۔
کوئی خاتون سورہ احزاب کی آيت کی بنياد پر يہ محسوس کرتی ہے کہ پردہ کرنا اس کے تحفظ کے لیے ضروری ہے توہميں اس پر کوئی اعتراض نہيں۔ اعتراض اس پر ہے کہ اس آيت سے ايک لازمی دينی حکم اخذ کیا جائے اور تمام خواتين پر اس کی پابندی لازمی قرار دے دی جائے۔ ہمارے نزديک آيت ميں اس کی گنجائش نہيں ہے۔آپ کی يہ بات ہمارے نزديک محل نظر ہے کہ جو حکم قرآن مجيد ميں بيان ہوا ، اس کو بغیر کسی دلیل، سیاق و سباق کی رعایت اور موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر عام کردیا جائے۔ قرآن کی سورہ جمعہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جایا کرو اور اللہ کا فضل یعنی رزق تلاش کیا کرو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص اس سے یہ مراد نہیں لیتا کہ ایسا کرنا لازمی ہے۔ بلکہ دنیا کے بہت سے اسلامی ممالک میں جمعے کو چھٹی ہوتی ہے۔ اور بہت سے ملکوں کے لوگ جمعے کے بعد ہاف ڈے کرکے گھروں میں آرام کرتے ہیں۔ اس لیے کہ موقع کلام اور سياق کلام کسی فرض حکم کو اخذکرنے کی يہاں اجازت نہيں ديتے۔ يہی ہمارے نزديک سورہ احزاب کی آيت کا معاملہ ہے جس کا قرينہ ہم پيچھے بيان کرچکے ہيں۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-04