جہاد اور نصرت الہی

16

سوال

ميرا سوال اس سے پہلے دئے گئے ايك جواب كے بارے ميں ہے جو آپ كی ويب سائٹ پوسٹ كيا گيا ہے: http://www.al-mawrid.org/pages/questions_urdu_detail.php?qid=1099&cid=478

اس جواب ميں بتايا گيا ہے ايك جنگ ميں مسلمانوں اور كفار كی حربی قوت كی نسبت ٣٣:١تھی۔ يہ بھی قرآن کے مطابق نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق خدا کی مدد تب نازل ہو گی جب نسبت ٢:اہوگی۔

اس پر يہ سوال بنتا ہے كہ کیا جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم موتہ کی جنگ پر گئے وہ اس قرآنی سورہ سے بے خبر تھے جس ميں مدرجہ بالا شرط بيان كی گئی ہے؟ کیوں کہ اگر وہ اس قرآنی سورہ سے باخبر ہوتے تو وہ جنگ لڑنے کے لیے اپنی طاقت کو ٢:١ بناتے۔ برائے مہربانی وضاحت کیجیے۔

جواب

آپ کے پچھلے سوال میں جس نقطہ نظر کا بیان تھا وہ کچھ اس طرح تھا کہ اگر حضرت خالد بن ولید چند نفوس کو لے کر ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر کو شکست دے سکتے ہیں تو پھر یہ چیز قرآن کریم کی اس آیت کے مطابق نہیں جس کے مطابق جہاد فرض ہونے کے لیے مسلمانوں اور غیر مسلموں کا حربی تناسب کم از کم ایک اور دو کا ہونا چاہیے۔ آپ کے جواب میں ہم نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ ایک بے اصل تاریخی روایت ہے اور پھر ایک مصدقہ تاریخی واقعہ کا بیان کیا تھا جس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کا تناسب ایک اور تینتیس تھا۔ اور اس میں بھی مسلمان فتح نہیں پاسکے تھے بلکہ حضرت خالد بن ولید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ سمجھا گیا تھا کہ وہ اپنے لشکر کو دشمنوں سے بچاکر لے آئے تھے۔

جہاں تک اب آپ کے اس نئے سوال کا تعلق ہے کہ فوجی طاقت کے اس تناسب کے ساتھ جنگ کی نوبت ہی کیوں پیش آئی، تو اس میں دو باتیں سمجھ لیجیے۔ ایک بات تو تاریخی ہے اور دوسری قانونی۔

تاریخی حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ جنگ موتہ میں مسلمانوں کا لشکر جب میدانِ جنگ کے قریب پہنچا، اس وقت مسلمانوں کو دشمن کی تعداد کا علم ہوا۔ یہ مسلمانوں کے لیے قطعاً غیر متوقع صورتحال تھی جس کے لیے وہ نہ فوجی اعتبار سے تیار تھے اور نہ ہی ذہنی طور پر۔ اب دو میں سے کوئی ایک راستہ مسلمانوں کو اختیار کرنا تھا۔ یا تو وہ بغیر جنگ کے واپس لوٹ جاتے، یا پھر میدان جنگ میں حتی الامکان دشمن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے۔

پہلی صورت میں مسلمانوں کا رعب ختم ہوجاتا اور دشمن کے حوصلے بہت بلند ہوجاتے۔ اس لیے مسلمانوں کے جذبہ شہادت سے سرشار لیڈروں مثلاً عبد اللہ بن رواحہ اور زید بن حارث نے یہ فیصلہ کیا کہ دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس غیر متناسب جنگ میں مسلمانوں کو کوشش کے باوجود کامیابی نہ ہوسکی اور ایک ایک کرکے مسلمانوں کے تین اہم سپہ سالار یعنی حضرت زید بن حارث، حضرت جعفر اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ شہید ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی اور اس بہادری اور ذہانت سے لڑے کہ دشمن کے لشکر کو پیچھے دھکیل دیا۔ ان حالات میں فیصلہ کن فتح ممکن نہیں تھی اس لیے دشمن کو مرعوب کرنے کے بعد وہ مسلمانوں کے لشکر کو بچاکر واپس لے آئے اور صرف بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ مسلمانوں کو جنگ سے قبل اس بات کا علم نہیں تھا کہ دشمن کے لشکر کی تعداد کتنی ہے۔ اس لیے ان پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا جو آپ نے اپنے سوال میں اٹھایا ہے۔ اس پس منظر میں اس کے بعد ہونے والی جنگ تبوک کو بھی نظر میں رکھیے۔ جس میں مسلمانوں نے اپنی تمام ممکنہ طاقت کو مجتمع کیا تھا اور پھر میدان جنگ میں اترے تھے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

اس تاریخی بات کے بعد دوسری بات قرآن کریم کے حکم سے متعلق سمجھ لیجیے۔ سورہ انفال کی آیت 66 میں ایک اور دو کا جو تناسب بیان ہوا ہے وہ مسلمانوں کی ذمہ داری کا بیان ہے۔ وہ اس بات کا بیان ہے کہ اس تناسب کے بعد اگر جنگ کے حالات پیدا ہوجائیں تو مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجاتا ہے اور وہ دشمن کے مقابلے سے راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتے۔ ساتھ ساتھ یہ آیت جہاد و قتال کے معاملے میں نصرت الٰہی کا ضابطہ بھی بیان کرتی ہے کہ کم سے کم اتنا تناسب تو ہونا چاہیے جس کے بعد اللہ کی مدد آتی ہے۔ یہ نہیں کہ چند مسلمان بے حد طاقتور دشمن سے ٹکراجائیں اور اس کے بعد توقع رکھیں کہ اللہ تعالیٰ لازماً ان کی مدد کرے گا۔ لیکن ان دونوں حقیقتوں کے باوجود یہ آیت اس بات میں ہرگز مانع نہیں ہے کہ آیت میں بیان کردہ تناسب سے کم تعداد ہونے کی صورت میں مسلمان دشمن سے جنگ نہیں کر سکتے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس تناسب سے اگر مسلمانوں کی تعداد کم ہو تو نہ مسلمانوں پر جنگ کی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی نصرت الٰہی کا کوئی وعدہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات ایک فوج دوسری فوج سے تعداد میں کم ہونے کے باوجود ٹکنالوجی، میدان جنگ کے حالات، حوصلے اور تیاری کے لحاظ سے اس پر برتری اور فوقیت حاصل کرلیتی ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر ایک مسلمان ملک یا سپہ سالار عددی لحاظ سے اپنے سے بڑے دشمن سے جنگ کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اسی لیے ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ نہ صرف صحابہ کرام بلکہ بعد میں آنے والے مسلمانوں نے ایسے ہی حالات میں دشمن سے جنگ کی ہے۔

تاہم یہ بات سمجھ لیجیے کہ ایسی صورت میں نہ دین ذمہ داری عائد کرتا ہے اور نہ خدا نصرت کا وعدہ کرتا ہے۔ خاص کر موجودہ حالات میں، جب مسلمان اپنے دشمنوں سے نہ صرف ٹکنالوجی کے اعتبار سے پیچھے ہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی بہت پست ہیں۔ ایسی صورت میں اپنے سے طاقتور دشمن کے مقابلے پر اترنا قرآن کے علاوہ حکمت عملی کے پہلو سے بھی سخت مضر ہے۔ اور اسی کے نتائج ہم پچھلے دو سو سالوں سے بھگت رہے ہیں۔

اس جواب کے کسی پہلو کے حوالے سے اگر کوئی بات مزيد وضاحت طلب ہے توآپ بلا جھجک ہم سے رابطہ کريں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بات درست ہے اسے ہمارے دلوں ميں راسخ فرمادے اور ہماری غلطيوں کو معاف فرماکر صحيح بات کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے،آمين۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-04

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading