قرآن میں ہر ہر چیز کا بیان ہونا

227

سوال

کیا قرآن میں حکم اور تفصیل دونوں پائے جاتے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تو قرآن کو ایک ایسی کتاب ہونا چاہیے ، جس میں ہر ہر چیز کا بیان موجود ہو؟

جواب

آپ کے سوال سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے قرآن کریم کی اپنی ایک بات سے اخذ کیا گیا ہے ۔ قرآن کا وہ فرمان اس طرح ہے :

’’یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات پہلے محکم کی گئیں پھر خدائے حکیم و خبیر کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی۔‘‘ ، ( ہود11: 1)

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کوجب نازل کیا ہے تو اس میں ایک خاص ترتیب ملحوظ رکھی ہے ۔ وہ یہ کہ بات آسانی سے سمجھانے اور واضح کرنے کے لیے پہلے اصولی پیغام مختصر مگر جامع اندازمیں اتارا گیا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ اس پیغام کی تفصیل کی گئی جس میں اس کے دلائل اور شرح وضاحت وغیرہ شامل ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم بچوں کو ا سکول میں تعلیم دیتے وقت ہر علم کی تفصیل سے آغا ز نہیں کرتے بلکہ ابتدائی تصورات کو اجمال کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ تفصیلات تک لے جاتے ہیں ۔ بڑ ے لوگ بھی کسی علم کو اسی اصول پر سیکھتے ہیں ۔ اسی کی رعایت اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے ۔
آپ کی یہ بات کہ کہ قرآن میں ہر چیز کابیان ہو یہ بھی ایک قرآنی بیان سے ماخوذ ہے ۔ یعنی قرآن مجید نے اپنے متعلق یہ بات کئی مقامات (مثلاً یوسف12: 111 ، نحل16: 89) پر کہی ہے کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل یا بیان ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کائنات کے تمام علوم کے بارے میں قرآن میں ساری تفصیلات موجود ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس بات کو قرآن کریم نے موضوع بنایا ہے یعنی ایمانیات ، اس کی تمام ترتفصیلات اس میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان و عقائد میں قرآن دین کی بنیادی ہی نہیں آخری کتاب بھی ہے ۔ جو اس نے اس ضمن میں بیان کر دیا وہی حرف آخر ہے ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-14

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading