رفعِ يدين سنت ہے یا نہیں؟

15

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ رفعِ یدین کو بہت سی احادیث کے باوجود سنت کیوں نہیں مانا جا سکتا؟

جواب

آپ کا اعتراض یہ ہے کہ حدیثوں میں رفعِ یدین کاذکرہونے کے باوجودہم اسے سنت کیوں نہیں مانتے۔ عرض ہے کہ نمازاوران جیسے دیگر احکام کاماخذحدیث نہیں ، بلکہ سنت ہے ۔یہ سنت ہمیں صحابہ کے اجماع اورعملی تواترسے ملتی ہے ۔اس سنت کے ذریعے سے ہمیں یہ معلوم ہے کہ نمازکاآغازرفعِ یدین سے ہوتا ہے ۔پھرقیام اورقراءت ہوتی ہے۔ پھر رکوع و سجود ہوتے ہیں ۔ دو رکعتوں کے بعدقعدہ ہوتا ہے اورنمازکا اختتام سلام پرہوتا ہے ۔آپ غورکریں گے تو اندازہ ہو گا کہ سنت کے اس ذریعے سے ملنے والی نماز کاتوآغازہی رفعِ یدین سے ہوتا ہے۔ اس کوثابت کرنے کے لیے کسی حدیث کی ضرورت ہے اورنہ اس میں کسی قسم کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ رکوع سے پہلے اور بعد کے جس رفعِ یدین کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں ، اس کاذکرصرف حدیث میں ملتا ہے ۔یہ بھی اگرنمازکالازمی حصہ ہوتاتوپہلے رفعِ یدین کی طرح ہی بغیرکسی اختلاف کے رائج ہوتا۔ مگراس کارائج نہ ہونا ہی یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ نماز کی کوئی الگ سنت ہے اور نہ اس کا ایک مستقل حصہ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا التزام کرنے والے بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اس کے چھوٹ جانے سے سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا۔

رفعِ یدین کی حقیقت تو یہی ہے کہ یہ نماز کا ایک لازمی رکن ہے جونمازکے شروع میں کیا جاتا ہے ۔ تاہم بعض مواقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے پہلے اور بعد میں بھی رفعِ یدین کیا ہے ۔اسی طرح کبھی سجدے میں جاتے اور اس اٹھتے ہوئے نیز کبھی تیسری رکعت سے اٹھتے ہوئے بھی آپ رفعِ یدین کر لیتے تھے ۔ مگرآپ کے ایسا کرنے سے یہ نماز کا لازمی حصہ نہیں بن گیا۔ البتہ کوئی شخص چاہے تو احادیث کی بنا پر آپ کی پیروی کرتے ہوئے ایسا کرسکتا ہے۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-13

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading