سوال
جناب میں اپنی زندگی کے مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہوں جس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ میرے اپنے والدین ہیں۔ اور اب میں ان سے نفرت کرنے لگا ہوں جتنی کہ میں نے آج تک کسی سے نہیں کی۔ میں ایک اچھی تنظیم میں کام کرتا ہوں، جو کہ ١٠٠ فیصد ذہنی اور جسمانی صحت کا مطالبہ کرتی ہے اور الحمد للہ میں اس لحاظ سے ان کے مطالبات پر پورا اترا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں اب دنیا میں کسی بھی لکھی ہوئی بات پر یقین نہیں کرتا۔ اور مجھے اب اس بات کا یقین بھی نہیں رہا کہ انسان جیسا عمل کرتا ہے اسے ویسا ہی اجر ملتا ہے۔ میرے خیال میں کیا ایک انسان خدا کی طرح ہر کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ اگربالفرض آپ مجھے قتل کر دیتے ہیں تو اس قتل کی سزا آپ کو کیوں ملے جب کہ کہا جاتا ہے کہ ہر چیز خدا کی طرف سے لکھی ہوئی ہوتی ہے؟ اب آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرے مرنے کا یہی وقت مقرر تھا او ر میری موت کا وقت لکھا ہوا تھا چاہے میری موت جیسے بھی ہوئی ہو۔ لیکن کیا میرا خاندان اس شخص کی معذرت سننے کے لیے تیار ہو گا جس نے مجھے قتل کیا ہو؟ میرا خاندان ہر صورت میں مجھے قتل کرنے والے کے خلاف انتقامی کاروائی کریں گے۔
اب اگر ہر چیز خدا کی طرف سے لکھی ہوتی ہے تو خدا مجھے میرے اعمال کی سزا مجھے کیوں دے جب کہ وہ جانتا ہے کہ میری زندگی میں فلاں فلاں اعمال مجھ سے سرزد ہوں گے؟ اگر ایسا ہے، تو یہ پھر وہ خدا کہاں ہے جو کہ انسان کو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے جب کہ وہ میرے ہاتھوں کسی کو قتل کرواتا ہے اور پھر مجھے اس کی سزا دی جاتی ہے؟ اب اگر سب کچھ لکھا ہوا نہیں ہے اور ہم اپنی مرضی سے تمام اعمال سر انجام دے سکتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کا حساب کیوں لے گا؟ جیسا کہ میرے والدین کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہے اور انھوں نے ہمیشہ مجھے گمراہی میں ڈالا اور پھر جب ان کی خطا سامنے آئی تو انہوں نے کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے لکھا ہوا تھا۔ میری زندگی ایک مشقت بنی ہوئی ہے اور نہ جانے کیوں اپنے والدین کی غلطیوں کی سزا بھی مجھے ہی مل رہی ہے۔ اور پھر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہر چیز دعا کے ذریعے معاف کروائی جا سکتی ہے سوائے موت کے۔ اور پھر جب ہم میں دعا کر کر کے تھک جاؤں اور دعا قبول نہ ہو تو کہتے ہیں کہ تمھارے لیے خدا کے کارخانے میں بہت کچھ ہے۔ میرے خیال میں یہ کھلا تضاد ہے۔
پھر دعا کیوں ہے جب کہ خدا ہمیں وہی عطا کرتا ہے جو وہ ہمارے لیے بہتر سمجھے، یا کچھ عطا بھی نہ کرے؟ اگر انسان کچھ برا کرے تو اس کے لیے عذاب مقرر ہے۔ تو پھر برائی کرنے والے ابھی تک د نیا میں بغیر عذاب کا سامنا کیے کیوں پھر رہے ہیں ؟ جناب میں اب ایک نہایت کمزور ترین ایمان والا انسان ہوں جسے صرف مسلمان کہا جا سکتا ہے۔ جتنا میرے علم میں ہے میں نے آج تک کوئی برا عمل نہیں کیا اور نہ کسی کے ساتھ کوئی برائی کی۔ پھر بھی میں ہمیشہ خدا کی مغفرت کا طلبگار رہتا ہوں۔ پھر خدا نے میری زندگی کو اتنا پر مشقت کیوں بنایا ہے؟ جب میری دعاؤں کا کوئی جواب ہی مجھے نہیں ملتا پھر مجھے کیوں اچھا انسان بننا چاہیے؟ میرے خیال میں دنیا میں کوئی بھی انسان خدا سے محبت نہیں کرتا اور اگر جنت اور حور کا تصور اسلام سے نکال دیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ بہت سے علماء اور نمازی یہاں دنیا میں رہ جائیں گے؟ دنیا میں کوئی شخص میرے خیال میں ایسا نہیں جو خود غرضی سے بالکل پاک ہو۔ میرے ذہن میں اور بہت بھی بہت سے سوالات ہیں جو میں اس سوال کا جواب ملنے پر ہی عرض کروں گا۔ برائے مہربانی مجھے اپنی زندگی کو معیاری بنانے کے لیے ان مسائل سے آگاہ کر کے میری رہمائی فرمائیے۔
جواب
آپ کی تمام تر پريشانی کا تعلق اس بات سے محسوس ہوتا ہے کہ تقدير سے متعلق آپ کے تصورات درست نہيں۔ ہم ذيل ميں تقدير سے متعلق ايک تفصيلی تجزيہ آپ کی خدمت ميں پيش کرديتے ہيں جس ميں اميد ہے کہ آپ کو اپنے پوچھے گئے اور نہ پوچھے گئے تمام سوالات کے جوابات مل جائيں گے۔
”تقدير اور قسمت، fate اورdestiny ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال ہوتے ہيں۔ قرآن کريم کے مطابق تقدير اللہ تعالیٰ کے اس اندازے يا منصوبے کا نام ہے جس کے تحت اس نے اس کائنات کو بنايا ہے۔ يہ اندازہ کيا ہوتا ہے اسے يوں سمجھيں کہ گاڑی يا کار زمين پر چلنے کے ليے بنائی جاتی ہے، جبکہ جہاز ہواميں اور کشتی پانی پر چلنے کے ليے بنائی جاتی ہے۔ان تينوں ميں وہ تمام ضروری چيزيں مہيا کی جاتی ہيں جو بالترتيب زمين، ہوا اور پانی ميں ان کا چلنا يقينی بناتی ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر شے اور پوری کائنات جس مقصد کے ليے بنی ہے اس مقصد کے حصول کے ليے اللہ تعالیٰ نے اس شے کی تخليق کرتے وقت پورا لحاظ کيا ہے اور اسی اعتبار سے اس کا ايک اندازہ مقرر فرماديا ہے، جس کی خلاف ورزی کوئی چيز کبھی نہيں کرسکتی۔ پوری کائنات اور اس کی ہر شے تقدير،اندازے اور منصوبہ بندی کے اسی اصول پر بنی ہے، اس بات کو قرآن کريم ميں کئی مقامات پر بيان کيا گيا ہے:
”وہی برآمدکرنے والاہے صبح کااوراس نے رات سکون کی چیزبنائی اورسورج اورچانداس نے ایک حساب سے رکھے۔ یہ خدائے عزیز وعلیم کی منصوبہ بندی ہے”۔(انعام96:6)
”اورسورج اپنے ایک معین مدارمیں گردش کرتاہے۔ یہ خدائے عزیز وعلیم کی منصوبہ بندی ہے۔” (يسين38:36)
”پس ان کے سات آسمان ہونے کافیصلہ فرمایادودنوں میں۔اورہرآسمان میں اس کے متعلقہ فرائض وحی کردیے۔اورہم نے آسمان زیریں کو چراغوں سے سنوارااوراس کواچھی طرح محفوظ کیا۔یہ خدائے عزیز وعلیم کی منصوبہ بندی ہے۔ (فصلت 12:41 )
”(اس رب کی پاکی بيان کرو ) اورجس نے(ہرچیزکے لیے)اندازہ ٹھیرایا،پھر(اس کے مطابق چلنے کی )راہ دکھائی ”، (اعلی3:87)
”ہم نے ہرچیزایک اندازے کے ساتھ پیداکی”۔(قمر49:54)
علم، حکمت اور قدرت کی صفات پر مبنی اللہ تعالیٰ کی يہی وہ تقدير ہے، جسے آج کل کی زبان ميں ہم منصوبہ بندی (planning) کہہ سکتے ہيں۔اس کی بنياد پر پوری کائنات ايک ترتيب اور تنظيم کے ساتھ چلتی ہے اور اسی بنا پر انسانوں کے ليے اس دنيا ميں جينا ممکن ہے۔ يہ نہ ہو تو زندگی وجود ميں آسکتی ہے اور نہ برقرار رہ سکتی ہے۔
تقدير کا يہی اصول کائنات کی ديگر چيزوں کی طرح انسانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ايک انسان کو کن والدين کے ہاں پيدا ہونا ہے؟ مرد عورت ميں سے کيا روپ اختيار کرنا ہے؟ اس کی جائے پيدائش،، قوم اور نسل کياہوگی؟ اس کی شکل و صورت کيسی ہوگی؟ ذہانت اور صلاحيت کا معاملہ کيا ہوگا وغيرہ، يہ چيزيں اللہ تعالیٰ کی علم، حکمت اور قدرت کے تحت طے ہيں۔اسی تقدير کے تحت يہ بات بھی متعين ہے کہ انسان کے ہر عمل کا ايک ردعمل ہوگا۔ وہ زہر کھائے گا تو مرجائے گا اور غذا لے گا تو صحت اور طاقت حاصل کرے گا۔ آگ ميں ہاتھ ڈالے گا تو ہاتھ جل جائے گااور اگر اسی آگ پر کھانے پکائے گاتو وہ قابل ہضم خوراک ميں بدل جائے گا۔اس اصول پر وہ اپنی زندگی کو بہتر بھی بناسکتا ہے اور اپنے حالات کو بدتر بھی کرسکتا ہے۔
اس تفصيل سے يہ بات ظاہر ہے کہ جو لوگ تقدير يا قسمت کا مطلب يہ سمجھتے ہيں کہ وہ کچھ نہ کريں اور جو کچھ مقدر ہے وہ انہيں ملتا رہے گا، يہ تصور درست نہيں۔ انسان کو جو کچھ ملنا ہے اور جتنا کچھ ملتا ہے وہ بلاشبہ طے ہے، مگر ساتھ ميں کاتب تقدير نے يہ بھی لکھ ديا ہے کہ انسان جو بھی کرے گا اسے اسی حساب سے ديا جائے گا۔تاہم انسانوں سے متعلق ايک دوسری حقيقت يہ ہے کہ اسے اس دنيا ميں آزمائش کے ليے پيدا کيا ہے۔يہ آزمائش دواجزا پر مبنی ہے۔ ايک يہ کہ انسان کو اچھے برے حالات سے انسانوں کو آزمايا جائے۔ دوسرا يہ کہ ان حالات ميں ديکھا جائے کہ انسان کيسے عمل کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ہرجان کوموت کاذائقہ چکھناہے۔اورہم تم لوگوں کودکھ اورسکھ دونوں سے آزمارہے ہیں، پرکھنے کے لیے۔اورہماری ہی طرف تمھاری واپسی ہونی ہے۔”،(الانبیاء21:35)
”بڑی عظیم اوربافیض ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں (اس کائنات کی )بادشاہی ہے اوروہ ہرچیزپرقادرہے۔جس نے پیدا کیا ہے موت اورزندگی کوتاکہ تمھاراامتحان کرے کہ تم میں کون سب سے اچھے عمل والابنتاہے۔اور وہ غالب بھی ہے اورمغفرت فرمانے والا بھی۔”،(الملک67:1-2)
اس آزمائش کے پہلے جز کو وجودميں لانے کے ليے اللہ تعالیٰ انسان کو اچھے برے حالات سے گزارتے ہيں۔چنانچہ ايسا ہوتا ہے کہ انسان کی تمام تر کوشش کے باجود بعض مسائل اور حادثات کا شکار ہوجاتا ہے يا پھر اس کی معمولی سی کوشش يا کم صلاحيت کے باجود اسے بہت زيادہ مل جاتا ہے۔يہ نعمتيں اور مصائب انسان کے امتحان کا وہ پرچہ ہيں جسے خالق کائنات نے خود ترتيب ديا ہے۔اس بات کو قرآن کريم ميں ايسے بيان کيا گيا ہے۔
”اورتمھیں کوئی مصیبت بھی نہیں پہنچتی ہے۔نہ زمینی پیداوارمیں اورنہ تمھارے اپنے نفوس کے اندر–(اور اسی طرح کوئی نعمت بھی)مگریہ کہ وہ لکھی ہوئی ہے ایک کتاب میں اس سے پہلے سے کہ ہم اس کووجودمیں لائیں۔اوریہ اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔(یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے)کہ جوچیزجاتی رہے اس پرغم نہ کرواورنہ اس چیز پر اتراؤ جواس نے تمھیں بخشی ہے۔اور(یادرکھوکہ ) اللہ اکڑنے والوں اورفخرکرنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔”، (الحدید 57:22-23)
يہ اللہ تعالیٰ کی حکمت، مشئيت رب اور اذن کے تحت ہوتا ہے اور اسے انسان کو اپنی تقدير کا حصہ سمجھ کر قبول کرنا چاہيے۔ جو بدل سکتاہے اسے بدلنے کی کوشش کرنی چاہيے اور جو نہ بدلا جاسکے اس کے ليے صبر و شکر کا رويہ اختيار کرنا چاہيے۔ کيونکہ يہ دنيا اصل ميں پانے يا کھونے کی جگہ نہيں بلکہ امتحان کی جگہ ہے۔ يہاں ہر طرح کے حالات ميں دراصل اس کے رويے، سوچ،، نيت اور محرکات اور عمل کو پرکھا جاتا ہے۔اس معاملے ميں يہ بات بالکل واضح رہنا چاہيے کہ اچھے برے اعمال جن پر انسان کی آخرت کا انحصار ہے، ان کو کرنے ميں انسان بالکل آزاد ہے۔ يہاں تک کہ اگر انسان حالات کے جبر کی بنا پر ان اعمال کو سرانجام نہ دے سکے تو محض عزم و ارادہ کرنے پر بھی اس کااجر لکھ ديا جاتا ہے۔ جيسے انسان اگر حج کا پختہ عزم کرلے اور کسی سبب سے حج پر نہ جاسکے تو بہرحال اسے اس عظيم عبادت کا اجر مل جائے گا۔
آپ کے سوال سے يہ بات محسوس ہوتی ہے کہ آپ انسان کے اخلاقی اعمال کو بھی تقدير سے متعلق مانتے ہيں اور يہ خيال فرماتے ہيں کہ انہيں بھی اللہ تعالیٰ لکھتے ہيں۔ قرآن اس طرح کی کوئی بات نہيں کہتا۔انسان کی تقدير سے مراد اس کے ساتھ پيش آنے والے اچھے برے حالات ہوتے ہيں جو اللہ تعالیٰ کے اذن سے ظہور پذير ہوتے رہتے ہيں۔ اچھے برے اعمال انسان اپنی مرضی اور ارادے سے کرتا ہے۔يہ پہلے سے نہيں لکھے ہوتے بلکہ قرآن کريم کے مطابق يہ اس وقت لکھے جاتے ہيں جب انسان ان کو کرتا ہے۔
”ہر گز نہيں ! بلکہ تم جزا کو جھٹلاتے ہوحالانکہ تم پر يقينا نگران مامور ہيں۔عالی قدر لکھنے والے۔ وہ جانتے ہيں جو تم کرتے ہو۔”، (انفطار9-12:82)
تاہم ايک اور چيز ہے جو تقدير سے الگ ايک جدا معاملہ ہے۔ وہ يہ کہ اللہ تعالیٰ کی ايک صفت صاحب علم ہونا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ زمان و مکان(Time and Space )کی ہر پابندی سے بلند ہيں اس ليے ان کا علم بھی ايسی پابنديوں سے بلند ہے۔ جس طرح وہ بيک وقت يہ جان سکتے اور جانتے ہيں کہ امريکہ اور پاکستان کيا ہورہا ہے، ايک بند کمرے کے اندر اور باہر کيا ہورہا ہے اسی طرح وہ يہ بھی بيک وقت جانتے ہيں کہ ماضی، حال اور مستقبل ميں کيا ہوگا۔ ليکن معاملہ يوں نہيں کہ اللہ تعالیٰ کے جاننے کی وجہ سے ہم کوئی کام کرتے ہيں بلکہ ہم ايک کام اپنی مرضی اور مکمل اختيار سے کرتے ہيں ، مگر وہ اللہ تعالیٰ کی صفت عليم کی بنا پر قبل از وقت اس کے علم ميں آجاتا ہے۔ اس کو ايک مثال سے يوں سمجھيں کہ ٹی وی کا کوئی پروگرام اگر دو دفعہ نشر ہوتا ہے تو جو شخص اسے پہلی دفعہ ديکھ لے وہ دوسری دفعہ نشر ہوتے وقت يہ بتاسکتا ہے کہ انجام کيا ہوگا۔ ليکن اس کے بتانے سے وہ انجام رونما نہيں ہوتا بلکہ پہلے ديکھنے کی خصوصيت کی بنا پر علم ہوجاتا ہے۔ يہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا ہے کہ اسے ہر چيز کا پہلے سے علم ہوجاتا ہے، مگر وہ چيز اس کے علم کی بنا پر نہيں ہوتی۔”
اس جواب کے کسی پہلو کے حوالے سے اگر کوئی بات مزيد وضاحت طلب ہے توآپ بلا جھجک ہم سے رابطہ کريں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بات درست ہے اسے ہمارے دلوں ميں راسخ فرمادے اور ہماری غلطيوں کو معاف فرماکر صحيح بات کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے،آمين۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-12-29