سوال
انبیاء کرام علیہم السلام کو جو معجزات دیے گئے تھے ان کا اصل مقصد کیا تھا؟ اس کا مقصد محض اتمام حجت تو نہیں ہو گا؟آج بھی اگر کوئی صوفی کرامات دکھاتے ہوئے مجھے میرے دل کا حال بتا دے یا لکڑی کا سانپ بنا دے تو ہم اسے جادو ٹونہ اور نفسی علوم کی شعبدہ گری کا نام دیتے ہیں۔ اس صوفی کو کوئی خدا کا محبوب اور مقرب نہیں ٹھہرا سکتا چاہے وہ اس بات کا دعویٰ ہی کیوں نہ کرے۔ لہٰذا یہ معجزات قوم کے پیغام حق پر ایمان لانے کے لیے بطور اتمام حجت تو نہیں ہوں گے۔ اس کام کے لیے کھلے دلائل ہی ہو سکتے ہیں ۔ اب کھلے دلائل سے پیغمبروں کی اللہ اور قیامت کے بارے میں کہی گئی باتوں کی سچائی تو ثابت ہو گئی لیکن یہ بات کیسے ثابت ہو گی کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہی بھیجا ہے؟ کوئی بھی آدمی قدرت اور قیامت کی بہترین طریقے سے وضاحت کر دے تو کیا ہم اسے رسول مان لیں گے؟ اسے ہم نبیغہ فلاسفر بھی تو مان سکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ معجزات باطل کو مٹانے کے لیے ہو سکتے ہیں جیسے ید بیضاء والا معجزہ، لیکن باقی ماندہ احوال کیا ہیں؟ رسولوں کی سچائی کا کیا ثبوت ہے؟ کیا صرف یہی کہ وہ ہمیں خدا اور قیامت کے بارے میں کچھ سادہ سے ثبوت دے کر ہمیں مطمئن کر دیں؟ ایک بندہ اگر اللہ تعالٰی کی طرف کوئی بھی بات منصوب کرنے میں بہت زیادہ محتاط ہو، وہ اس معاملے میں کس طرح مطمئن ہو گا کہ فلاں کو خدا نے ہی بھیجا ہے؟ کیا ہمیں صرف خدا اور قیامت کو مان کر رسالت کی طرف سے آنکھیں بند کر کے ایمان لے آنا چاہیے؟ پیغمبر عذاب آنے سے پہلے یہ کیسے ثابت کرے گا کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا رسول ہے؟ کیا صرف اپنی راہ ہدایت اور راہ عمل کی عقلی رفعات اور اپنے کردار کے بلند مرتبے سے؟ برائے مہربانی میرے سوالات کے ایک ایک پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
جواب
آپ نے جو سوال کیا ہے وہ ایک جواب سے بڑھ کر تفصیلی گفتگو کا متقاضی ہے۔ تاہم اگر اس کا خلاصہ کیا جائے تو بنیادی طور پر دریافت طلب بات یہ سامنے آتی ہے کہ ایک نبی کی سچائی کا ثبوت کیا ہوتا ہے اور اس میں معجزے کی کیا اہمیت و مقصد ہے؟ خوش قسمتی سے اس موضوع پر استاذِ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے بہت تفصیل کے ساتھ کلام کیا ہے جس میں نہ صرف نبی کی سچائی کے تمام پہلو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں بلکہ اسی ذیل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کارِ نبوت میں معجزات کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ ذیل میں ہم یہ بحث آپ کے لیے نقل کررہے ہیں۔ امید ہے کہ اس میں آپ کو اپنے تمام سوالات کا جواب مل جائے گا۔ وہ اپنی کتاب میزان میں ایمانیات کی بحث میں نبی کی پہچان کی نشانیاں ـ’نبی کی معرفت’ کے عنوان سے اس طرح بیان کرتے ہیں:
”نبی کی شخصیت انسانیت کا مظہر اتم اور اُس کی دعوت انسان کی فطرت پر مبنی ہوتی ہے۔ تمام بھلائیوں کا سرچشمہ دو ہی چیزیں ہیں: ایک خدا کی یاد، دوسرے غریبوں کی ہمدردی۔ نبی خود بھی اِن کا اہتمام کرتا اور دوسروں کو بھی اِنھی کی دعوت دیتا ہے۔ وہ لوگوں سے جو کچھ کہتا ہے، عقل و بصیرت کے آخری معیار پر کہتا ہے اور اُنھی چیزوں کے بارے میں کہتا ہے جن سے انسان غافل ہوتا یا اُنھیں بھلا بیٹھتا ہے۔ پھر اُس کی نبوت کے پیچھے اخذ و اکتساب کا کوئی پس منظر بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اُس کو پہچاننے میں کسی سلیم الفطرت شخص کو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ انسان کے دل و دماغ بیدار ہوں تو روے و آواز پیمبر معجزہ ست:
قُلْ: لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُه، عَلَيْْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِه، فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِه، اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ؟(يونس٠١:٦١)
”کہہ دو کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمھیں سناتا اور نہ وہ تمھیں اِس سے با خبر کرتا۔ (یہ اُسی کا فیصلہ ہے)، اِس لیے کہ میں تو اِس سے پہلے ایک عمر تمھارے اندر گزار چکا ہوں۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟”
تاہم اِس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اُس کو ایسی بینات بھی عطا فرماتے ہیں کہ معاندین اگرچہ زبان سے اقرار نہ کریں، لیکن اُس کی صداقت پر یقین کے سوا اُن کے لیے بھی کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ زمانہ رسالت کے اہل کتاب سے متعلق قرآن نے اِسی بنا پر ایک جگہ فرمایا ہے کہ اُن میں سے ہر ایک اپنی موت سے پہلے مان لے گا کہ پیغمبر کی بات ہی حق تھی۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بینات ہر نبی کو اُس کے زمانہ اور حالات کے لحاظ سے دی جاتی ہیں۔ اِن میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کریں گے۔
١۔ نبی بالعموم اپنے سے پہلے نبی کی پیشین گوئی کے مطابق اور اُس کا مصداق بن کر آتا ہے۔ اِس لحاظ سے وہ کوئی اجنبی شخصیت نہیں ہوتا۔ لوگ اُس سے متعارف بھی ہوتے ہیں اور اُس کے منتظر بھی۔ مسیح علیہ السلام کے بارے میں صراحت ہے کہ سیدنا یحییٰ نے اُن کی بعثت سے پہلے یروشلم میں اُن کی منادی کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تورات و انجیل، دونوں میں بیان ہوئی ہے، بلکہ سیدنا مسیح کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نبی امی کی بشارت کے لیے آئے تھے۔ قرآن نے اپنی صداقت کے لیے اِسے ایک برہان قاطع کی حیثیت سے پیش کیا ہے کہ بنی اسرائیل کے علما اُس کو اِس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح ایک مہجور باپ اپنے موعود و منتظر بیٹے کو پہچانتا ہے۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خوب پہچانتے تھے:
وَاِنَّه، لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ عَلٰی قَلْبِهَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ ، بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِيْنٍ ، وَاِنَّه، لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ. اَوَلَمْ يَکُنْ لَّهُمْ اٰيَةً اَنْ يَّعْلَمَه، عُلَمٰۤؤُا بَنِیْۤ اِسْرَآءِ يْلَ؟ (الشعراء٦٢:٢٩١-٧٩١)
”اور یہ نہایت اہتمام کے ساتھ عالم کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اِسے روح الامین لے کر تمھارے قلب پر اترا ہے تاکہ تم لوگوں کو خبردار کرنے والے بنو، صاف عربی زبان میں۔ اور اِس کا ذکر اگلوں کے صحیفوں میں بھی ہے۔ کیا اِن کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے علما اِس کو جانتے ہیں؟”
٢۔ نبی جو کچھ خدا کی طرف سے اور خدا کے کلام کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اُس میں کوئی تضاد و تخالف نہیں ہوتا۔ دنیا میں آخری درجے کا کوئی عبقری بھی، خواہ وہ سقراط و فلاطوں ہو یا کانٹ اور آئن اسٹائن، غالب و اقبال ہو یا رازی و زمخشری، اپنی تخلیقات کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن قرآن نے یہ بات اپنے بارے میں کہی ہے اور پورے زور کے ساتھ کہی ہے کہ اُس میں فکر و خیال کا کوئی ادنیٰ تناقض بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا انسان بھی ہو سکتا ہے جو سال ہا سال تک مختلف حالات میں اور مختلف موقعوں پر اِس طرح کے متنوع موضوعات پر تقریریں کرتا رہے اور شروع سے آخر تک اُس کی یہ تمام تقریریں جب مرتب کی جائیں تو ایک ایسے ہم رنگ اور متوافق مجموعہ کلام کی صورت اختیار کر لیں جس میں نہ خیالات کا کوئی تصادم ہو ، نہ متکلم کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی کیفیات کی کوئی جھلک دکھائی دے اور نہ راے اور نقطہ نظر کی تبدیلی کے کوئی آثار کہیں دیکھے جا سکتے ہوں ؟ یہ تنہا قرآن ہی کی خصوصیت ہے :
اَفَلاَ يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ، وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلاَفًا کَثِيْرًا.(النساء ٤:٢٨)
”اور کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں وہ بڑے تضادات پاتے۔”
استاذ امام لکھتے ہیں:
”قرآن کی ہر بات اپنے اصول اور فروع میں اتنی مستحکم اور مربوط ہے کہ ریاضی اور اقلیدس کے فارمولے بھی اتنے مستحکم و مربوط نہیں ہو سکتے۔ وہ جن عقائد کی تعلیم دیتا ہے، وہ ایک دوسرے سے اِس طرح وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر اُن میں سے کسی ایک کو بھی الگ کر دیجیے تو پورا سلسلہ ہی درہم برہم ہو جائے۔ وہ جن عبادات و طاعات کا حکم دیتا ہے، وہ عقائدسے اِس طرح پیدا ہوتی ہیں، جس طرح تنے سے شاخیں پھوٹتی ہیں۔وہ جن اعمال و اخلاق کی تلقین کرتا ہے، وہ اپنے اصول سے اِس طرح ظہور میں آتے ہیں، جس طرح ایک شے سے اُس کے قدرتی اور فطری لوازم ظہور میں آتے ہیں۔ اُس کی مجموعی تعلیم سے زندگی کا جو نظام بنتا ہے، وہ ایک بنیان مرصوص کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اِس طرح جڑی ہوئی ہے کہ اُن میں سے کسی کو بھی الگ کرنا بغیر اِس کے ممکن نہیں کہ پوری عمارت میں خلا پیدا ہو جائے۔”(تدبر قرآن ٢/٧٤٣)
٣۔ نبی کو اللہ تعالیٰ معجزات و خوارق عطا فرماتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا مسیح کو جو غیر معمولی معجزات دیے گئے، اُن کے بارے میں خود قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ وہ جن چیزوں پر دلالت کے لیے دیے گئے، اُن میں سے ایک اِن نبیوں کی رسالت بھی تھی۔ چنانچہ عصاے موسوی اور ید بیضا کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے:
فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلاَه. اِنَّهُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ.(القصص٨٢:٢٣)
”سو یہ دو واضح نشانیاں ہیں فرعون اور اُس کے سرداروں کے پاس جانے کے لیے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ نافرمان لوگ ہیں۔”
اِن معجزات کو کوئی شخص سحر و ساحری یا علم و فن کا کمال کہہ کر رد نہیں کر سکتا۔ اِس لیے کہ اِس طرح کے علوم و فنون کی حقیقت اُس کے ماہرین سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتااور وہ بھی اُن کے سامنے اعتراف عجز پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے جن دو معجزات کا ذکر اوپر ہوا ہے، اُن کا اثر مٹانے کے لیے فرعون نے یہی امتحان کیا تھا۔ قرآن کا بیان ہے کہ اُس نے تمام مملکت میں ہرکارے بھیج کر ماہر جادوگر بلائے اور میلے کے دن اُنھیں مقابلے کے لیے پیش کر دیا۔ اُس نے یہ اہتمام فتح کی توقع میں کیا تھا، لیکن ہوا یہ کہ جادوگروں نے عصاے موسوی کو اپنا طلسم نگلتے دیکھا تو بے اختیار سجدہ ریز ہو گئے اور اعلان کر دیا کہ وہ موسیٰ و ہارون کے رب پر ایمان لے آئے ہیں۔ یہ ایمان چونکہ حقیقت کو بچشم سر دیکھ لینے سے پیدا ہوا تھا، اِس لیے ایسا راسخ تھا کہ فرعون نے جب اُنھیں دھمکی دی کہ میں تمھارے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دوں گا اور تمھیں کھجور کے تنوں پر سر عام سولی کے لیے لٹکا دوں گا تو وہی جادوگر جو چند لمحے پہلے بڑی لجاجت کے ساتھ اُس سے انعام کی درخواست کر رہے تھے۔ پکار اٹھے کہ ماہ نخشب اور خورشید جہاں تاب کا یہ فرق دیکھ لینے کے بعد اب ہمیں کسی چیز کی کوئی پروا نہیں ہے:
قَالُوْا : لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰی مَا جَآءَ نَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا، فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ، اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا. اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطٰيٰنَا وَمَآ اَکْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ، وَاللّٰهُ خَيْْرٌ وَّاَبْقٰی.(طٰهٰ٠٢: ٢٧-٣٧)
”اُنھوں نے جواب دیا: ہم اُن روشن نشانیوں پر جو ہمارے پاس آئی ہیں اور اُس ذات پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، تم کو ہرگز ترجیح نہ دیں گے۔ تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو، کرو۔ تم زیادہ سے زیادہ اِسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتے ہو۔ ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اِس جادوگری سے، جس پر تونے ہمیں مجبور کیا تھا، درگذر فرمائے۔ اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والاہے۔”
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معجزہ اِس حیثیت سے دیاگیا، وہ قرآن ہے۔ عربی زبان کے اسالیب بلاغت اور علم و ادب کی روایت سے واقف ادبی ذوق کے حاملین اِسے پڑھتے ہیں تو صاف محسوس کرتے ہیں کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ایک سے زیادہ مقامات پر اِس نے خود اپنے مخاطبین کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اگر اپنے اِس گمان میں سچے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہے ، بلکہ محمد اِسے اپنی طرف سے گھڑ کر پیش کر رہے ہیں تو جس شان کا یہ کلام ہے، اُس شان کی کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کریں۔ اُن کی قوم کا ایک فرد اگر اُن کے بقول بغیر کسی علمی اور ادبی پس منظر کے یہ کام کرسکتا ہے تو اُنھیں بھی اِس میں کوئی دقت نہ ہونی چاہیے۔
قرآن کا یہ دعویٰ ایک حیرت انگیز دعویٰ تھا۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ قرآن ایک ایسا کلام ہے جس کے مانند کوئی کلام انسانی ذہن کے لیے تخلیق کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ فصاحت وبلاغت اور حسن بیان کے لحاظ سے قرآن کی غیرمعمولی انفرادیت کا دعویٰ تھا۔ یہ اِس بات کا دعویٰ تھاکہ وہ کوئی ایسا کلا م پیش کریں جس میں قرآن ہی کی طرح خدا بولتا ہوا نظر آئے، جو اُن حقائق کو واضح کرے جن کا واضح ہونا انسانیت کی شدید ترین ضرورت ہے اور وہ کسی انسان کے کلام سے کبھی واضح نہیں ہوئے، جو اُن معاملات میں رہنمائی کرے جن میں رہنمائی کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ ایک ایسا کلام جس کے حق میں وجدان گواہی دے، علم وعقل کے مسلمات جس کی تصدیق کریں، جو ویران دلوں کو اِس طرح سیراب کردے، جس طرح مردہ زمین کو بارش سیراب کرتی ہے، جس میں وہی شان اور وہی تاثیر ہو جو قرآن کا پڑھنے والا، اگر اُس کی زبان سے واقف ہوتو اُس کے لفظ لفظ میں محسوس کرتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کے مخاطبین میں سے کوئی بھی اِس چیلنج کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں کرسکا۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَيْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِه وَادْعُوْا شُهَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ، اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ. فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ، اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِيْنَ. (البقره٢:٣٢-٤٢)
”اور جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے، اُس کے بارے میں اگر تمھیں شبہ ہے تو (جاؤ اور)اُس کے مانند ایک سورہ ہی بنا لاؤ، اور (اِس کے لیے) خدا کے سوا تمھارے جو زعما ہیں، اُنھیں بھی بلالو، اگر تم (اپنے اِس گمان میں) سچے ہو۔ پھر اگر نہ کر سکو اور ہرگز نہ کرسکوگے تو اُس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن یہ لوگ بھی ہوں گے (جو نہیں مانتے) اور اِن کے وہ پتھر بھی (جنھیں یہ پوجتے ہیں)۔ وہ اِنھی منکروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔”
خداکی یہ کتاب اِس وقت بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ اِس پر کم وبیش چودہ صدیاں گزر چکی ہیں۔ اِس عرصے میں دنیا کیا سے کیا ہوگئی۔ بنی آدم نے نظریہ وخیال کے کتنے بت تراشے اور پھر خود ہی توڑ دیے۔ انفس وآفاق کے بارے میں انسان کے نظریات میں کتنی تبدیلیاں آئیں اور اُس نے ترک واختیار کے کتنے مرحلے طے کیے۔ وہ کس کس راہ سے گزرا اور بالآخر کہاں تک پہنچا، لیکن یہ کتاب جس میں بہت سی وہ چیزیں بھی بیان ہوئی ہیں جو اِن پچھلی دو صدیوں میں علم وتحقیق کا خاص موضوع رہی ہیں، دنیا کے سارے لٹریچر میں بس ایک ہی کتاب ہے جو اِس وقت بھی اِسی طرح اٹل اور محکم ہے، جس طرح اب سے چودہ سوسال پہلے تھی۔ علم وعقل اِس کے سامنے جس طرح اُس وقت اعتراف عجز کے لیے مجبور تھے، اُسی طرح آج بھی ہیں۔ اِس کا ہر بیان آج بھی پوری شان کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ دنیا اپنی حیرت انگیز علمی دریافتوں کے باوجود اُس میں کسی ترمیم وتغیر کے لیے کوئی گنجایش پیدا نہیں کرسکی:
وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ، وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ ِلاَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا.(بنی اسرائيل٧١: ٥٠١)
”اور ہم نے اِس کو حق کے ساتھ اتارا ہے اور یہ حق ہی کے ساتھ اترا ہے اور ہم نے تم کو، اے پیغمبر، صرف اِس لیے بھیجا ہے کہ (ماننے والوں کو) بشارت دو اور (جو انکار کریں)، اُنھیں خبردار کردو۔”
٤۔ اللہ تعالیٰ بعض ایسے امور غیب پر نبی کو مطلع کر دیتے ہیں جن کا جان لینا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اِس کی ایک مثال وحی الٰہی کی پیشین گوئیاں ہیں جو حیرت انگیز طور پر بالکل صحیح ثابت ہوئیں۔ اِن میں سے بعض قرآن میں ہیں اور بعض کا ذکر روایتوں میں ہوا ہے۔ سرزمین عرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ، فتح مکہ اور لوگوں کے جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہونے کی پیشین گوئی سے قرآن کا ہر طالب علم واقف ہے ۔ ایرانیوں سے مغلوب ہوجانے کے بعد رومیوں کی دوبارہ فتح کی پیشین گوئی بھی ایسی ہی غیرمعمولی تھی۔ قرآن مجید میں یہ اِس طرح بیان ہوئی ہے:
غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْۤ اَدْنَی الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ فِیْ بِضْعِ سِنِيْنَ، لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ، وَيَوْمَئِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِنَصْرِ اللّٰهِ، يَنْصُرُ مَنْ يَّشَآءُ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ، وَعْدَ اللّٰهِ، لَا يُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَه،، وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ. (الروم٠٣:٢-٦)
”رومی قریب کے علاقے میں مغلوب ہوگئے ہیں اور اپنی اِس مغلوبیت کے بعد وہ چندسال کے اندر غالب ہو جائیں گے۔ اللہ ہی کے حکم سے ہوا ہے جو پہلے ہوا اور جو بعد میں ہوگا، وہ بھی اللہ کے حکم سے ہوگا۔ اور اُس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہو جائیں گے۔ وہ جس کی چاہتا ہے، مدد فرماتا ہے اور وہ زبردست ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ”
یہ پیشین گوئی جب کی گئی تو ”زوال روما” کے مصنف ایڈورڈ گبن کے الفاظ میں: ”کوئی بھی پیشگی خبر اتنی بعید ازوقوع نہیں ہوسکتی تھی، اِس لیے کہ ہرقل کے پہلے بارہ سال رومی سلطنت کے خاتمہ کا اعلان کر رہے تھے۔” لیکن یہ ٹھیک اپنے وقت پر پوری ہو گئی اورمارچ ٨٢٦ میں رومی حکمران اِس شان سے قسطنطنیہ واپس آیا کہ اُس کے رتھ کو چار ہاتھی کھینچ رہے تھے اور بے شمار لوگ دارالسلطنت کے باہر چراغ اور زیتون کی شاخیں لیے اپنے ہیرو کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
٥۔ نبیوں میں سے جو رسول کے منصب پر فائز ہوتے ہیں، وہ خدا کی عدالت بن کر آتے اور اپنی قوم کا فیصلہ کرکے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے یہ پیغمبر اپنے پروردگار کے میثاق پر قائم رہتے ہیں تو اِس کی جزا اور اُس سے انحراف کرتے ہیں تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو اُن کی قوموں کے لیے دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلہ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو غلبہ عطا فرماتے اور اِن کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں:
وَلِکُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ، فاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِیَ بَيْْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُوْنَ. (يونس٠١:٧٤)
”اور ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا وہ رسول آجائے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔”،( میزان 129-35)
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-22