سوال
قرآن مجید میں ایک سے زیادہ بار کتاب مبین کے الفاظ آئے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان الفاظ سے قرآن کی مراد کیا ہے۔
جواب
کتاب مبین کا لفظی مطلب واضح کتاب کا ہے اور یہ یہ ترکیب قرآن مجید میں کئی مقامات پر استعمال کی گئی ہے۔ قران کریم کے نظائر کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترکیب دومفاہیم کے لیے میں استعمال کی گئی ہے۔ ایک کلام الہی اور دوسرا علم الہی کی تعبیر کے لیے۔
پہلے مفہوم کی ایک مثال سورہ یوسف کی آیت نمبر 1 اور سورہ شعرا کی آیت نمبر 2 ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
الر تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِیْنِ(1)
یہ الر ہے۔ یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔
یہاں مراد کتاب الہی یعنی قرآن مجید ہے۔ مبین سے یہاں مراد یہ ہے کہ یہ کتاب ایسی واضح ہدایت پر مشتمل ہے جو ہر قسم کی گمراہی کے اندھیروں میں ہدایت کی روشن شمع بن کر منور ہوتی ہے۔
دوسرے مفہوم کی ایک مثال سورہ انعام کی آیت 59ہے جس میں ارشاد ہوا۔
وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ(59)
نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے، مگر وہ ایک روشن کتاب میں مندرج ہے۔
یہ علم الہی کی وسعت کی تعبیر ہے۔ اس کی حقیقت تو ہم نہیں جانتے مگر یوں سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہمارے ہاں علم کتابوں میں درج ہوتا ہے اسی طرح ہر چیز کا علم اﷲ تعالیٰ کے ہاں ایک کتاب میں مندرج ہے، مگر یہ کتاب اتنی واضح اوربین ہے کہ کائنات کے علم کی تفصیل اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود اس میں سے اخذ کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا دن کی روشنی میں کسی چیز کو دیکھنا۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-10-27