سوال
میں کچھ سوال آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں جن کے بارے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔ ۱۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی حقیقی بیٹیاں تھیں ؟ ۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل بیعت سے کون لوگ مراد ہیں ؟ ۳۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مآخذ کیا ہے؟ ۴۔ آیات مباہلہ سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ آیات نازل ہوتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو ساتھ لے کر گئے تھے؟ اگر لے کر گئے تھے تو کن لوگوں کو ساتھ لے کر گئے تھے؟ ۵۔ پردے کے بارے میں آپ لوگوں کی رائے ہے کہ یہ قرآن میں اس کا حکم صرف امہات المومنین کے لیے تھا۔ تو آپ پھر یہ واضح کریں کہ پردہ کروایا اور کیا کیوں جاتا ہے اگر ایسی بات ہے تو؟ ۶۔ درود میں جس آل کے لیے دعا کی جاتی ہے اس سے کون لوگ مراد ہیں ؟
برائے مہربانی تفصیلی وضاحت فرمائیں۔
جواب
آپ کے سوالات کے جواب ترتیب وار درج ذیل ہیں :
١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنھن)۔ ہمارے ہاں ایک نقطہ نظر یہ بھی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراء تھیں۔ تاہم اس بات کی تردید قرآن مجید نے خود کی ہے۔ سورہ احزاب آیت 59 میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ کر نکلا کریں۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے لیے بنات کا لفظ آیا ہے جو عربی زبان میں جمع کا صیغہ ہے اور تین یا تین سے زیادہ لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نیز اس آیت میں بیٹیوں سے مراد امت کی عام خواتین اس لیے نہیں لی جاسکتیں کہ ان کا ذکر ‘نساء المومنین ‘ کہہ کرالگ سے کردیا گیا ہے۔ اس لیے یہ بات نص قطعی سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زائد حقیقی بیٹیاں تھیں جن کے نام ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں۔
٢۔ قرآن کریم کی سورہ احزاب میں آیت 28 سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو خطاب کرکے کچھ احکام دیے گئے ہیں۔ اسی سلسلہ کلام میں آیت 32 میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو ”اہل بیتـ” کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ یہی عربی زبان میں اہل بیت کا صحیح مدعا ہے۔ بعض ذہین لوگ ازواج مطہرات کو اس خطاب سے خارج کرنے کے لیے یہ نکتہ پیدا کرتے ہیں کہ سورہ احزاب کی آیت 33 میں اہل بیت کے ساتھ صیغہ تانیث کی جگہ صیغہ مذکر استعمال ہوا ہے اور اس طرح گویا وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں ازواج مطہرات مراد ہی نہیں ہیں۔ گرچہ سیاق کلام ہی اس نامعقول دعوے کی تردید کے لیے بہت کافی ہے پھر بھی ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ عربی زبان میں مذکر کا صیغہ اس بات کو لازم نہیں کردیتا کہ یہاں لازمی طور پر مردوں کا مخاطب ہونا ضروری ہے۔ قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر ٹھیک اسی پس منظر میں یہ حقیقت بالکل کھول دی ہے۔ سورہ ہود کی آیت 73 میں جب اللہ کے فرشتے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اولاد کی خوش خبری سناتے ہیں تو ان کی اہلیہ حضرت سارہ تعجب کا اظہار کرتی ہیں۔ اس پر فرشتے ان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں : ”کیا تم اللہ کی قدرت سے تعجب کرتی ہو؟ اے اہل بیت تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔” یہاں پر ایک تنہا خاتون کو مخاطب کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے جمع مذکر مخاطب کا صیغہ استعمال کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے مواقع پر یہ تعظیم کا صیغہ بن جاتا ہے اور اس میں واحد جمع اور مذکر و مؤنث زیر بحث نہیں رہتے۔ یہی معمالہ سورہ احزامب کی مذکورہ آیت کا بھی ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات ظاہر ہے کہ کسی انسان کی بیوی اصل میں اہل بیت کہلانے کی سب سے زیادہ حق دار ہے جسے اردو میں گھر والی کہا جاتا ہے۔ اولاد اور دیگر رشتے اس میں شامل کر تو لیے جاتے ہیں لیکن وہ تبعاً شامل ہوتے ہیں۔
٣۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مأخذ کے بارے میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی صاحب سنت کے مشمولات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
”سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق موجود نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے، لہٰذا اِس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔”
استاذ گرامی کی اس عبارت سے واضح ہے کہ سنت اجماع یعنی علمی اتفاقِ راے اور عملی تواتر یعنی نسل در نسل عملی طور پر بحیثیت سنت ایک عمل کے بلاانقطاع منتقل ہونے کے ذریعے سے ہمیں ملی ہے۔
٤۔ آیت مباہلہ سے سورہ آل عمران کی آیت 61 مراد لی جاتی ہے۔ ایک روایت میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسن حسین کو لے کر نکلے تھے۔
٥۔ مرد و زن کے اختلاط کے حوالے سے آپ استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا نقطہ نظر ان کی کتاب میزان کے باب ‘قانون معاشرت’ میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔ تاہم ان کا نقطہ نظر وہ نہیں ہے جو آپ نے بیان فرمایا ہے کہ عورت کا سر، چہرہ، ہاتھ اور پاؤں نہ ڈھانپے جائیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن کریم کے مطابق ان کا ڈھانپنا ضروری نہیں ہے۔ یعنی بات یوں نہیں ہے کہ ان کو ڈھانپنے کی ممانعت ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ان کا چھپانا لازمی نہیں ہے۔ یہ بات سورہ نور آیت 27 تا 31 سے واضح ہے۔ یہی اس باب میں دوسرے متعدد اہل علم کا نقطہ نظر ہے جو چہرہ وغیرہ چھپانے کو پردے کا لازمی حصہ نہیں سمجھتے۔ جہاں تک سورہ احزاب میں آنے والے احکام کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں بھی استاذ گرامی اپنی کتاب میں یہ واضح کردیا ہے کہ ان میں سے کچھ کا تعلق ازواج مطہرات سے ہے اور کچھ ایک خاص موقع و محل کے احکام ہیں۔ ان کی تفصیل آپ استاذ گرامی کی کتاب میزان میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔ جہاں تک پردے کی غرض و غایت کا تعلق ہے تو اس کو قرآن کریم نے سورہ نور کی مذکورہ بالا آیات میں خود ہی واضح کردیا ہے کہ اس کا اصل مقصود پاکیزگی پیدا کرنا ہے۔ اور یہ پاکیزگی یا تزکیہ ہی دین کا اصل نصب العین ہے۔
٦۔ عربی زبان میں آل کا لفظ جس طرح اولاد کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی طرح اعوان و انصار اور متبعین کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ہمیں قرآن کریم میں ملتی ہے جہاں جگہ جگہ آل فرعون کا ذکر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آل فرعون سے مراد محض اولاد فرعون نہیں بلکہ اس کی سلطنت کے اعیان و انصار اور متبعین سب شامل تھے۔ درودِ ابراھیمی میں آل سے مراد رسول اللہ کے اعوان و انصار، صحابہ و اہل بیت اور متبعین سب شامل ہوں گے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-12-04