کشف و الہام

38

سوال

اصلاحی صاحب نے اپنی کتاب تزکیہ نفس میں صو فیا کے بارے میں جو رائے قائم کی ایک حق پرست کو وہی ذیب دیتا ہے۔ لیکن کچھ باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں ۔ آپ اس کو ذرا واضح کریں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ مدرجہ ذیل سے اصلاحی صاحب کی کیا مراد ہے۔ غامدی صاحب ایک شاگرد کے طور پر اس کی صحیح طور پر وضاحت کر سکتے ہیں۔

اصلاحی صاحب کہتے ہیں “کشف و الہام کے اس علم کے حصول کے ہم منکر نہیں ہیں لیکن یہ علم قابل قبول صرف اس حالت میں ہونا چاہیے جب یہ شریعت کے مطابق ہو”۔ ( تزکیہ نفس صفحہ ٧٦)دوسری جگہ اس کتاب میں لکھا ہے: ہمارے نزدیک اس طرح الہام یا کشف کاملین کو تو ہو سکتا ہے لیکن ہم ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ یہ الہام یا کشف رحمانی بھی ہو سکتا ہے۔” (تزکیہ نفس صفحہ٨٠) ان دو جملوں کو میں نہیں سمجھ سکا اس کی وضاحت کریں۔ میں غامدی صاحب کی اس بات کو مانتا ہوں جو انہوں نے نے ایک ٹی وی پروگرام میں فرمائی ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ محمدؐ کے بعد کشف، وحی، اور الہام کا کسی صورت قائل نہیں ہیں۔

جواب

جس نوعیت کے کشف و الہام اور وحی کو اصلاحی صاحب درست نہیں سمجھتے وہ نبوت کا ایک جزو ہوتا ہے۔ جبکہ دیگر نوعیت کے الہام قرآنِ کریم سے خود واضح ہے کہ غیر انبیاء کو بھی ہوتے ہیں اور ایک حدیث میں بھی یہ بات بیان ہوئی ہے کہ خواب (مبشرات)کی صورت میں یہ دیگر لوگوں کو ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے بارے میں قرآن بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مکمل رہنمائی فرمائی کہ موسیٰ علیہ السلام کے پیدا ہونے کے بعد وہ کس طرح ان کے تحفظ کا اہتمام کریں۔ بلکہ ان پر یہ بھی واضح کردیا گیا کہ حضرت موسیٰ کو بچانے کے بعد ان کے پاس لوٹا دیا جائے گا اور آگے چل کر انہیں نبوت و رسالت عطا کی جائے گی۔
ظاہر ہے کہ نہ حضرت موسیٰ کی والدہ نبی تھیں اور نہ ہی یہ اس نوعیت کا الہام تھا بلکہ یہ وہی چیز تھی جسے حدیث میں مبشرات کہا گیا ہے۔ جو چیز اب نہیں ہوسکتی وہ یہ ہے کہ کسی کو اس نوعیت کا کوئی خواب یا الہام ہو جس میں شریعت کے کسی حکم کے خلاف کوئی کام کرنے کی رہ نمائی ہو۔
یہاں یہ مزید سمجھ لیجیے کہ نبی اور غیر نبی کے الہام میں ایک بنیادی فرق یہ پایا جاتا ہے کہ نبی پر جب بھی وحی و الہام ہوتا ہے اس کا مأخذ و مصدر اس ہر بالکل واضح ہوتا ہے۔ اُسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں بات براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا فرشتے کی طرف سے اس تک منتقل کی جارہی ہے۔ جبکہ دیگر لوگوں کا معاملہ یہ نہیں ہوتا۔ ان کا احساس یا تو وجدانی نوعیت کا ہوتا ہے یا پھر جیسا کہ ہم نے بیان کیا ایک خواب کی صورت میں بات القا کی جاتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس کے بعد اس الہام میں نہ یقین کا وہ عنصر باقی رہ سکتا ہے جو نبی کو حاصل ہوتا ہے نہ یہ شرعی طور پر معتبر ہوتا ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ حیثیت ایک ذاتی رہ نمائی کی ہوتی ہے۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-11-19

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading