قرآن، سنت اور حدیث

58

سوال

کیا آپ مجھے کسی ایسی سنت کے بارے میں بتا سکتے ہیں جو ہم تک اجماع اور تواتر سے پہنچی ہو، لیکن کتب ِ حدیث میں اُس کا کہیں کوئی بیان موجود نہ ہو ؟ اِسی طرح کیا آپ مجھے کوئی ایسی حدیث بتاسکتے ہیں جو “صحیح” ہو، لیکن قرآن مجید یا سنت سے متصادم ہو ؟ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ حدیث اگر “صحیح” ہو تو وہ قرآن سے معارض نہیں ہوسکتی ۔ برائے مہربانی، اِس کی وضاحت فرمادیں۔

جواب

جہاں تک آپ کے پہلے سوال کا تعلق ہے تو اِس حوالے سے میری تحقیق کے مطابق وہ اعمالِ سنن جنہیں انبیا علیہم السلام کے دین میں آسمانی شریعت کی حیثیت حاصل ہے اور جنہیں آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید واصلاح اور بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے اور وہ آپ سے اُمت کے علمی اجماع اور عملی تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں ؛ اُن سنن میں کوئی ایسی سنت موجود نہیں ہے جس کے بیان،تاکید،شرح ووضاحت یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس پر عمل کی روایت سے حدیث کا پورا ذخیرہ کلیۃً خاموش ہو ۔ ہر سنت کے بارے میں کچھ نہ کچھ اخبار آحاد کتبِ حدیث میں بہرحال مل جاتی ہیں ؛ جن میں یا تو اُس سنت کا بیان ہوتا ہے،یا اُس پر عمل کی تاکید معلوم ہوتی ہے،یا اُس پر عمل کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اُسوہ واضح ہوتا ہے،یا اُس سنت کے بارے میں تفہیم وتبیین کے پہلو سے کوئی روشنی ملتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ حدیث کے ذخیرے میں سننِ شریعت کے بارے میں اِس سب کچھ کا پایا جانا بالکل فطری ہے ۔ کیونکہ جن سُنن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی شریعت کی حیثیت دی،اُن میں سے بعض کو از سر نو زندہ کیا،کچھ سنن میں پہلے سے رائج بعض بدعتوں کی اصلاح کی،علم الٰہی کی روشنی بعض نئی سُنن اپنے ماننے والوں میں جاری فرمائیں،بعض سُنن کے بارے میں ضرورت کے موقعوں پر کچھ وضاحتیں بھی فرمائیں،اپنی زندگی میں برسوں اُن پر عمل پیرا رہے؛جب یہ واقعہ ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ذخیرۂ حدیث،جو کہ اصلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے علم وعمل کی روایت پر مبنی ہے،وہ اِس طرح کی کسی سنت کے بارے میں بالکل خاموش ہو۔

دوسرے سوال کے حوالے سے یہ بات سب سے پہلے واضح رہنی چاہیے کہ حدیث کے بارے میں لفظ “صحیح” علمِ حدیث کی ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے،نہ کہ اُس معنی میں جو کہ اُردو اور عربی کلام میں عموماً معلوم ہے ۔ جس حدیث کو علماے حدیث “صحیح” قرار دیتے ہیں،اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ روایت اپنی سند کے لحاظ سے محدثین کے مقرر کردہ اُن معیارات پر پورا اُترتی ہے جن کی بنیاد پر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی حدیث کے ثبوت کو اپنی رائے میں قابل اعتبار واعتماد قرار دیتے ہیں ۔ حدیث کے ذخیرے میں بلاشبہ بعض ایسی روایات کا پایا بھی بالکل ممکن ہے جو اپنی سند کے اعتبار سے تو “صحیح” کے درجے کی ہوں،لیکن اُن کے متن میں جو بات بیان ہوئی ہو وہ قرآن یا سنت سے متصادم ہو ۔ اِس طرح کی روایات کے بارے میں اُصول یہ ہے کہ غور وتدبر کے بعد اگر قرآن وسنت کی روشنی میں اِن کی کوئی صحیح تاویل ممکن ہو تو فبہا، ورنہ اہل علم کے نزدیک ایسی احادیث سنداً “صحیح” ہونے کے باوجود درایۃً رد کردی جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر امام مسلم نے اپنی “صحیح” میں مندرجہ ذیل احادیث نقل کی ہے جو سند کے اعتبار سے اُن کی تحقیق کے مطابق “صحیح” کے درجے کی ہیں،لیکن اِن کے متن میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ واضح طور پر قرآن کی اِس آیت سے متصادم ہے کہ : ولا تزر وازرة وزر اخری۔ “اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا(اُس دن)کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا”۔ (انعام : 164)

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں میں سے کچھ لوگ قیامت کے دن اِس حال میں آئیں گے کہ اُن کے گناہ پہاڑوں کی مانند ہوں گے ۔ پھر اللہ تعالٰی اُن کے اُن گناہوں کو بخشں کر یہود ونصاری پر وہ گناہوں ڈال دیں گے ۔

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالٰی ہر مسلمان کے سامنے ایک یہودی یا نصرانی کو پیش کر کے فرمائیں گے کہ تمہاری بدلے آگ میں یہ جائے گا۔(مسلم، رقم 2767)

مجیب: Muhammad Amir Gazdar

اشاعت اول: 2015-10-18

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading