ابراہیم علیہ السلام اللہ کے رسول تھے۔ يا نبی ؟

94

سوال

چند سوالات پیش خدمت ہیں۔ ١۔ منہج انقلاب نبوی میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے رسول تھے۔ قرآن میں کہاں پر ان کو اللہ کا رسول کہا گیا ہے۔ قرآن میں سورہ مریم میں ان کو اللہ کا نبی کہا گیا ہے۔ برائے مہربانی واضح کریں کہ آپؑ صرف نبی تھے یا رسول بھی تھے؟ ٢۔ قرآن مجید میں ہے کہ حقا علینا نصر المومنین، تو پھر کیا نبی مومن نہیں ہوتا کہ وہ قتل ہو جاتا ہے؟میرے خیال میں تو مومنوں سے بھی برتر ہوتا ہے۔ اگر اللہ کے نبی مومن ہونے کے باوجود قتل ہو سکتے ہیں تو کیا رسول کے لیے قتل ہونے کا امکان پیدا نہیں ہو جاتا؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔

جواب

آپ کے سوالات کے جواب حسب ذیل ہیں :

١) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کا نام لے کر یہ وضاحت کی ہے کہ وہ رسول تھے بلکہ یہ بات بھی واضح کی ہے کہ ان کی قوم ان رسولوں کی مخاطب اقوام میں شامل تھی جنہیں ان کے جرائم کی پاداش میں ہلاک کردیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”کیا انہیں ان لوگوں کی سرگزشت نہیں پہنچی جو ان سے پہلے گزرے-قوم نوح، عاد، ثمود،قوم ابراہیم،اصحاب مدین اور الٹی ہوئی بستیوں کی۔ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو اللہ ان کے اوپر ظلم کرنے والا نہیں بنا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے”،(التوبہ70:9)

دیکھ لیجیے اس آیہ مبارک میں نہ صرف قوم ابراہیم کا ہلاک شدہ اقوام کے ساتھ ذکر ہے بلکہ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ان اقوام کے پاس ان کے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دیگر اقوام کے پاس آنے والی ہستیوں کی طرح حضرت ابراہیم بھی منصب رسالت پر فائز تھے۔ رہی بات آپ کے اس شبہ کی کہ سورہ مریم میں انہیںایک بنی کہا گیا ہے تو یہ اس حقیقت کا بیان ہے کہ ہر رسول ایک نبی بھی ہوتا ہے۔ یعنی نبی ہوتا تو رسول کے لیے لازمی ہوتا ہی ہے۔ کیونکہ وہ اللہ سے رہنمائی پاکر پھر لوگوں کو حق کی طرف بلاتا ہے۔ لیکن ایک رسول ہونے کی بنا پر یہ واقعہ بھی ہوجاتا ہے کہ اس کی تکذیب کی شکل میں قوم کو ہلاکت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سورہ توبہ کی اس ایک آیت میں یہ ساری باتیں بیان ہوگئی ہیں۔ اس لیے حضرت ابراہیم کو قرآن مجید کے کسی مقام پر ایک نبی کہنے سے ان کے رسول ہونے کی تردید نہیں ہوجاتی۔ آپ غور کیجیے کتنے ہی مقاما ت پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔کیا اس سے آپ کے رسول ہونے کی تردید ہوجائے گی؟

٢)آپ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس کا مکمل ترجمہ درج ذیل ہے:

”اور ہم نے تم سے پہلے بھی رسول بھیجے ان کی قوموں کی طرف۔پس وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جنہوں نے جرم کیا۔ اور اہل ایمان کی نصرت ہم پر لازم تھی”،(روم47:30)

آیت کے مکمل ترجمے سے یہ بات واضح ہے کہ یہاں ہمارے آپ جیسے عام اہل ایمان کا ذکر نہیں ہورہا۔یہاں اہل ایمان سے مراد رسولوں کے ساتھی ہیں۔یہاں یہ بھی واضح رہے نبی ہر حال میں اہل ایمان سے بڑھ کر ہوتا ہے چاہے وہ عام اہل ایمان ہوں یا رسولوں کے ساتھی مومن ہوں۔یہ بھی واضح رہے کہ قتل رسول نہیں ہوئے ہیں، ان کے اہل ایمان ساتھی بہرحال کفار کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-11-18

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading