سوال
سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث میں نے پڑھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حلال و حرام اور باقی ماندہ تمام اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے قرآن ہی کافی ہے۔ اس حدیث کے متعلق میں چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں۔
۱۔اس حدیث کا معیار کس حد تک درست ہے؟
۲۔ اس حدیث کا اصل مفہوم کیا ہے؟
۳۔ اس موضوع پر کوئی اور حدیث بھی مروی ہے؟
جواب
جو روایت آپ نے نقل کی ہے محدثین اسے ایک صحیح روایت قرار دیتے ہیں۔ انہی الفاظ اور اسی مفہوم کے ساتھ اور دیگر کئی روایات ہیں جو کتبِ حدیث میں ملتی ہیں۔ یہ تمام روایات اس حقیقت کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے لیے دین سمجھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ اس حوالے سے جو کچھ استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان میں لکھا ہے، وہ ہم ذیل میں نقل کردیتے ہیں جس سے نہ صرف اس حدیث کا مفہوم واضح ہوجائے گا بلکہ یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ دین کیا ہے، اس کے مأخذ کیا ہیں اور ان سے احکام کن بنیادوں پر اخذ کیے جاسکتے ہیں:
”دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف اُنھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو اُن کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف اُنھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے:
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِييّنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِه وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ. (الجمعه ٢٦: ٢ )
”وہی ذات ہے جس نے اِن امیوں میں ایک رسول اِنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اِن پر تلاوت کرتا ہے اور اِن کا تزکیہ کرتا ہے اور (اِس کے لیے ) اِنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔”
یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ”اسلام” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اِس کے ماخذ کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے :
١۔ قرآن مجید
٢ ۔سنت
قرآن مجید کے بارے میں ہر مسلمان اِس حقیقت سے واقف ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے، اور اپنے نزول کے بعد سے آج تک مسلمانوں کے پاس اُن کی طرف سے بالاجماع اِس صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور جسے آپ کے صحابہ نے اپنے اجماع اور قولی تواتر کے ذریعے سے پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے دنیا کو منتقل کیا ہے۔
سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔ قرآن میں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ روایت بھی اُسی کا حصہ ہے۔
سنت یہی ہے اور اِس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اِس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ۔وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے ،یہ اِسی طرح اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرارپائی ہے، لہٰذا اِس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ” (میزان، اصول و مبادی13-14)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ دین کا اصل مأخذ قرآنِ مجید نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ آپ کی ذات سے جو دین ہمیں ملا ہے وہ قرآن مجید کے علاوہ سنت میں بھی اسی طرح پایا جاتا ہے۔ یہی بات اس حدیث میں کہی گئی ہے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-24