لاعلاج مریض کی مصنوعی زندگی

13

سوال

کسی مریض کے بارے میں اگر یہ اندازہ ہو جائے کہ اس کا علاج ناممکن ہے ، تو اس صورت میں ہماری شریعت ہمیں کیا رہنمائی دیتی ہے؟ کیا جب تک اس کی طبعی موت واقع نہ ہو، اسے مصنوعی آلات کے ذریعے سے زندہ رکھا جائے یا دواؤں کے ذریعے سے از خود موت کے حوالے کر دیا جائے؟

جواب

مرض کا علاج اگر نہیں ہے تو ڈاکٹر پر مریض کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اگر مریض کے علاج کے لیے آپ کے پاس کوئی چیز موجود ہے تو ہر صورت میں علاج کیجیے ورنہ اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیجیے ۔ دین و اخلاق کی رو سے ڈاکٹر کے پاس نہ لاعلاج مریض کو خواہ مخواہ زندہ رکھنے کی تدبیر کی کوئی ذمہ داری ہے اور نہ خود سے اقدام کر کے اس کو مارنے کا حق ہے ۔ ہمارے ہاں دونوں معاملات میں بالعموم افراط و تفریط ہوتی ہے ۔ ایک طرف دواؤں کے ذریعے سے ازخود لوگوں کو مارا جاتا ہے، اس کا بھی کسی کو حق حاصل نہیں ہے، یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے اور دوسری طرف یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ کوئی علاج نہیں ہو سکتا ، مریض کو زندہ رکھنے کی کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں ۔ یہ بھی کوئی اخلاقی فریضہ نہیں ہے ۔دونوں کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیجیے ۔ علاج ہے تو آخری دم تک علاج کیجیے ۔ نہیں ہے تو بس ہاتھ اٹھا دیجیے، باقی معاملات اللہ تعالیٰ خود کر لیں گے ۔ اس معاملے میں لواحقین کو بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ صبر کرنا چاہیے ۔

مجیب: Javed Ahmad Ghamidi

اشاعت اول: 2015-06-20

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading