سوال
قرآن مجید کی ٣٠ پاروں میں تقسیم کی کیا حقیقت ہے ؟ کیا اس تقسیم کو ملحوظ رکھ کر پڑھنا لازم ہے ؟
جواب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سورتوں میں تقسیم کیا ہے۔ پاروں میں تقسیم تو بہت بعد میں ہوئی ہے ۔ جب تراویح میں لوگوں نے قرآن سننا سنانا شروع کیا اور یہ ذوق پیدا ہو ا کہ ماہ رمضان میں قرآن ضرور ختم کرنا ہے تو پھر انھوں نے اسے تیس دن کے لحاظ سے تیس پاروں میں تقسیم کر دیا ۔
ہمارے ہاں پہلے زمانے میں حافظ وہ ہوتے تھے جو قرآن کے عالم ہوتے تھے۔ دوسرے زمانے میں حافظ وہ ہوتے تھے جو بالعموم اندھے ہوتے تھے ۔ انھوں نے اپنی آسانی کے لیے یہ تقسیم اس طریقے سے کی ہے کہ لفظ گن لیے اور الفاظ کی گنتی کے لحاظ سے قرآن کو تیس پاروں میں تقسیم کر لیا۔ اس تقسیم میں اگر جملہ پورا ہو گیا تب بھی ٹھیک ہے ، نہیں پورا ہوا تب بھی ٹھیک ہے ۔ کلام کا ربط باقی رہا ہے تب بھی ٹھیک ہے ، اور اگر نہیں باقی رہا تب بھی ٹھیک ہے۔
میرے نزدیک یہ تقسیم درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی تقسیم سورتوں میں کی ہے اور اسی کے لحاظ سے وہ ہمیشہ پڑھا جانا اور شائع ہونا چاہیے ۔ پارے بالکل بے معنی ہیں۔ ان کا کوئی تعلق اس سے نہیں ہے کہ مفہوم و مدعا کے لحاظ سے جملہ کہاں پورا ہوتا ہے۔ اس میں بعض لوگوں نے رکوع کے لحاظ سے مزید تقسیم کی ہوئی ہے ۔ اگرچہ یہ کسی حد تک بامعنی اور معقول ہے ، لیکن اس پر بھی نظر ثانی ہونی چاہیے ۔
مجیب: Javed Ahmad Ghamidi
اشاعت اول: 2015-06-19