قبولیت حدیث کی شرط

35

سوال

علامہ خطیب بغدادی کی تصنیف ”الکفایہ فی علم الروایہ” فن حدیث کی امہات کتب میں سے ہے۔ اس میں انھوں نے قبولیت حدیث کے شرائط کے ضمن میں پہلی شرط یہ بیان کی ہے کہ حدیث عقل و فطرت کی کسوٹی پر پوری اترنی چاہیے۔ اس کے بعد کہا ہے کہ وہ قرآن کے خلاف نہ ہو، وہ سنت کے خلاف نہ ہو۔ میرا سوال یہ ہے کہ حدیث کا عقلی طور پر قابل قبول ہونا قرآن وسنت پرمقدم کیوں کیا گیا ہے؟

جواب

علامہ خطیب بغدادی نے اس بات کو دو جگہ بیان کیا ہے۔ ایک جگہ اسی طرح سے بیان کیا اور دوسری جگہ قرآن کو مقدم کر کے بیان کیا ہے۔ یعنی دونوں طرح کے بیانات ہیں۔ تاہم جہاں عقل کو مقدم کرکے بیان کیا ہے وہاں اس کی وجہ یہ ہے کہ خود قرآن مجید کی دعوت جس چیز پر مبنی ہے، وہ علم وعقل ہی ہے۔ علامہ خطیب بغدادی نے اگر کسی موقعے پر اس چیز کو مقدم کردیا ہے تو غلط نہیں کیا۔ اس لیے کہ پہلا فیصلہ تو عقل نے کرنا ہے کہ کوئی چیز فی الواقع علم وعقل کے مسلمات پر پوری اترتی ہے یا نہیں۔

البتہ، ایک چیز واضح رہنی چاہیے کہ ایسا نہیں کہنا چاہیے کہ حدیث عقل کے خلاف نہ ہو، بلکہ اصل میں یہ کہنا چاہیے کہ علم وعقل کے مسلمات کے خلاف نہ ہو۔ ورنہ اس صورت میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک آدمی بالکل عامیانہ طریقے سے دوچار عقلی مقدمات قائم کرتا ہے اور کہتا ہے یہ چیز عقل کے خلاف ہے۔ علم وعقل کے مسلمات سے مراد یہ ہے کہ وہ بات علمی لحاظ سے بھی مسلمہ ہو اور عقلی لحاظ سے بھی۔ اگر اس کے خلاف کوئی روایت ہے تو پھر اس کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ (جون ٢٠٠٤)

مجیب: Javed Ahmad Ghamidi

اشاعت اول: 2015-06-19

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading