نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور امام مالک کا نقطۂ نظر

1334

سوال

امام مالک نماز میں ہاتھ چھوڑ کر قیام کرنے کے قائل تھے ۔ایسا وہ کس دلیل ، حدیث یا صحابی رسول کی پیروی میں کرتے تھے ؟

جواب

میری تحقیق کے مطابق علمی طور پر نہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ امام مالک نماز میں ہاتھ چھوڑ کر قیام کرنے کے قائل تھے ، اور نہ ہی اِس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کی کوئی روایت موجود ہے ۔

تفصیل کے طالب راقم الحروف کی مندرجہ ذیل تحقیق ملاحظہ فرمائیں :

نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنا

نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کے عمل کو اگر تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو صحیح نقطۂ نظر تک پہنچنے کے لیے میرے نزدیک مندرجہ ذیل نکات کو جاننا نہایت ضروری ہے :

ایک یہ کہ نماز کے اعمال میں ہاتھ باندھنے یا دوسرے لفظوں میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنے کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اُمت کے علمی اتفاق اور عملی تسلسل سے سنت کی حیثیت سے ثابت ہے ۔ اور اِسی سنت کا بیان آپ سے مروی متعدد قولی وفعلی ‘صحیح’ احادیث میں موجود ہے ۔ اِس باب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کے سوا کوئی دوسری چیز کسی صحیح یا ضعیف روایت میں بھی کہیں نقل نہیں ہوئی ہے ۔ یہی بات امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب ‘التمھہد’ میں بیان فرمائی ہے ۔ (20/74)

دوسرے یہ کہ حالتِ قیام میں دونوں ہاتھ باندھنے کا یہ عمل اپنے درجۂ حکم کے اعتبار سے ایک مطلوب اور پسندیدہ سنت کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ بہرحال نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے ۔

تیسرے یہ کہ تمام صحابۂ کرام ، فقہا ومحدثین اور سلف وخلف اِس عمل کے سنت ہونے کے بارے میں متفق ہیں ، سوائے اُمت کے ایک اقلِّ قلیل کے کہ جس کی نسبت سے اِس باب میں کچھ مختلف عمل یا نقطۂ نظر نقل ہوا ہے ۔ جس کی تفصیل اور تحقیقی تجزیہ درج ذیل ہے :

ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا

علم کی دنیا میں یہ بات بالکل متعین ہے کہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا سنت ہونا تو در کنار ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کسی صحیح یا ضعیف خبر واحد میں بھی اِس کا کہیں کوئی بیان موجود نہیں ہے ۔ البتہ بعض افرادِ اُمت سے نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کی سنت سے مختلف عمل یعنی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا روایت ہوا ہے ۔ اُن میں صحابۂ کرام میں سے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ،تابعین اور اُن کے بعد کے فقہا میں سے سعید بن مسیب،حسن بصری،ابراہیم نخعی،لیث بن سعد اور ابن جریج کے نام بتائے جاتے ہیں ۔ اِن حضرات کے بارے میں بعض لوگوں نے اپنا یہ مشاہدہ بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے اِن کو حالتِ قیام میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے ہوئے دیکھا ہے ۔

اِس طرح کی غیر مرفوع روایات کے بارے ایک بات تو یہ واضح رہے کہ اِن اصحاب علم کی طرف اِس طرح کے مشاہدات کی یہ نسبت کسی یقینی ذریعے سے تو ثابت نہیں ہے ۔ اِن کے بارے میں یہ معلومات محض ایک یا دو افراد کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں ۔ لہذا کوئی شخص بھی اِن روایات کے ثبوت کی قطعیت کا دعوی نہیں کرسکتا ۔

دوسرے یہ کہ اِن روایات کی صحت سند پر اگر کوئی شخص مطمئن بھی ہوجائے ، تب بھی اس بات پر تنبہ رہے کہ نماز کے قیام میں ہاتھ چھوڑنا اِن میں بعض حضرات کے ذاتی عمل ہی کے طور پر بیان ہوا ہے ۔ یہ مرفوع احادیث کا درجہ رکھتی ہیں ، نہ حدیث وسنت میں اِس عمل کی کہیں کوئی بنیاد موجود ہے ۔

چنانچہ ہمارے نزدیک اپنے ظاہر کے اعتبار سے متفق علیہ سنت کے خلاف ہونے کی بنا پر اِس طرح کی کوئی روایت قبول نہیں کی جاسکتی ۔ الّا یہ کہ شریعت ہی کی روشنی میں اُس کی کوئی معقول تاویل کرلی جائے ۔ مثال کے طور پر امام ابن عبد البر نے اِس کی تاویل میں بجا فرمایا ہے کہ اہل علم کا نماز میں اِس مقصد سے ہاتھ چھوڑنا کہ وہ لوگوں پر یہ بات واضح کریں کہ ہاتھ باندھنے کا عمل نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے تو اُس صورت میں اِن کے اِس طرح کے عمل کو خلاف سنت قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ یعنی اِس کا تعلق تو محض لوگوں کو اِس عمل کی دینی حیثیت کی تعلیم دینے سے ہے۔(التمھید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید 20/76)

غرضیکہ تاویل یہ ہوئی کہ اُمت کے جن اصحاب علم کو بعض لوگوں نے اگر ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے تو اِس کی وجہ در اصل یہ نہیں ہوگی کہ وہ اِسے سنت سمجھتے ہیں ، کیونکہ علمِ دین کی روشنی مین یہ بات محال ہے ، بلکہ اُن کا مقصود یہی ہوگا کہ ہاتھ باندھنا چونکہ نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے ، اس لیے ضرورت کے بعض مواقع پر یا حالات کے تقاضے کے تحت لوگوں کو اِسی بات کی تعلیم دینے کے لیے اُنہوں نے ایسا کیا ہوگا ۔

پھر سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اِس باب میں ایک قولی روایت بھی نقل ہوئی ہے جو اُن کے ہاتھ چھوڑنے کے روایت کردہ عمل کے بالکل برعکس اور عین سنت کے مطابق ہے،اور وہ یہ ہے :

“نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا سنت” ہے ۔ (التمھید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید،20/74)

بلا شبہ اِس روایت کی صحت کا بھی پورے وثوق سے دعوی نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ یہ بھی اُن سے خبر واحد ہی کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے ۔ تاہم بالبداہت واضح ہے کہ اُن کا یہ قول عین سنت ثابتہ کے مطابق ہے ۔ روایت کے طریقے پر اگر یہ حضرت عبد اللہ سے صحت کے ساتھ ثابت نہ بھی ہو تو اِس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ۔ کیونکہ قیام میں ہاتھ باندھنے کا یہ عمل،جیساکہ اوپر بیان ہوا،دین کے ماخذ میں پوری قطعیت کے ساتھ ثابت ہے۔

کیا حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنا مکروہ ہے؟

ائمۂ اربعہ میں سے اِس مسئلے کے بارے میں اگرچہ امام مالک کے حوالے سے،جیسا کہ سائل کے سوال سے بھی واضح ہے ؛ بالعموم عوام الناس میں اِس بات کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے کہ حالتِ قیام میں اُن کی رائے کے مطابق دونوں ہاتھوں کو چھوڑ کر رکھنا ہی سنت ہے ۔ تاہم تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو میرے نزدیک خود امام مالک کی طرف اِس قول کی نسبت کچھ بہت قطعی نہیں ہے ۔ اِس لیے کہ اِس باب میں خود اُن کے اپنے شاگردوں نے اُن سے جوکچھ روایت کیا ہے،اُس میں بہت کچھ اختلاف ہے؛جس کی تفصیل یہ ہے :

۱ ۔ ابن القاسم کی ایک روایت کے مطابق امام مالک کے نزدیک حالت قیام میں ہاتھوں کو باندھنا مطلقاً مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے ۔ اور دوسری روایت کے مطابق وہ فرض نمازوں میں ہاتھ باندھنے کو مکروہ اور نوافل میں مباح یعنی جائز قرار دیتے ہیں ۔ امام مالک کی یہ رائے ابن القاسم کے سوا اُن کے کسی دوسرے شاگرد نے اُن سے نقل نہیں کی ہے ۔ تاہم متاخرین مالکیہ کی بالعموم رائے اور اُن کا فتوی اِسی پر ہے ۔

۲ ۔ اشہب بن عبدالعزیز کی روایت ہے کہ فرض نماز ہو یا نفل ، امام مالک کی رائے میں حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔یہی بات امام مالک سے اُن کے وہ شاگر بھی روایت کرتے ہیں جو اہل مدینہ میں سے ہیں ۔

۳۔ مطرف،ابن الماجشون اور ابن المنذر وغیرہ کا کہنا ہے کہ امام مالک نے نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کو مستحسن اور پسندیدہ عمل قرار دیا ہے ۔ علماے مالکیہ میں سے ابن عبد البر،ابن رشد،قاضی عیاض،ابن عبد السلام،لخمی اور ابن العربی نے اِسی رائے کو اختیار کیا ہے (التمھید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید،20/74 ۔ شرح الزرقانی علی مؤطا امام مالک،1/453-455)

دیکھیے امام مالک سے خود اُن کے اپنے شاگردوں نے اِس مسئلے میں ایک نہیں ، بلکہ تین مختلف اقوال نقل کردیے ہیں ۔ اِن کا اگر تحقیقی جائزہ لیا جائے تو علمِ دین کی روشنی میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ پہلے دونوں اقوال کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے حدیث وسنت میں کہیں کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ اور اِس طرح کے معاملات میں ظاہر ہے کہ آپ کی نسبت کے بغیر کسی بھی دینی نقطۂ نظر کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی ۔ پھر مزید یہ کہ امام مالک سے منقول اِن دونوں اقوال میں سے دوسرے کو تو شاید کسی تاویل کے تحت لاکر قبول کیا جاسکتا ہے ، ورنہ دوسری صورت میں یہ دونوں ہی آرا اِس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالاجماع ثابت شدہ سنت کے خلاف ہونے کی بنا پر کسی طرح قبول نہیں کی جا سکتیں ۔

امام ابن عبد البر نے بھی نماز میں ہاتھ باندھنے کی کراہت کے قول سے نہ صرف یہ کہ شدید اختلاف کیا ہے،بلکہ اِس معاملے میں فرض اور نفل کی تفریق کو بھی بالکل بے معنی قرار دیا ہے ۔(التمھید،20/67-80)کیونکہ معاملہ فرض نماز کا ہو خواہ نفل کا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواے ہاتھ باندھنے کوئی دوسری چیز کسی بھی ذریعے سے نقل نہیں ہوئی ہے ۔ پھر جس چیز پر آپ کا عمومی عمل ثابت شدہ ہے ، اُسے مکروہ قرار دینا زیادہ جسارت کی بات ہے ۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا عمل اگر مکروہ ہے تو یہ کراہت محض رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے قول وفعل ہی سے ثابت ہوسکتی ہے ۔ اِس کے سوا دین میں اِس کے ثبوت کے کسی ماخذ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔

جہاں تک امام مالک سے منقول اُن کے تیسرے قول کا تعلق ہے تو مندجہ ذیل وجوہات کی بنا پر روایت ودرایت کے اعتبار سے میرے نزدیک وہی اُن کا راجح اور واحد قابل قبول قول ہے :

1۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری شدہ سنت اور اِس معاملے میں اُمت کے علمی اتفاق اور اُس کے عملِ مسلسل کے موافق ہے ۔

2۔ متعدد مرفوع اور صحیح احادیث سے بھی اِس کی مطابقت ہے ۔

3۔ امام مالک کی اپنی مؤطا سے بھی اُن کے اِسی قول کا معتمد ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اور مؤطا اُن کی وہ کتاب ہے ، جسے اُنہوں خود تالیف کیا،برسوں پڑھایا،وہ عمر بھر اُن کے سامنے پڑھی گئی اور اُن کے بے شمار شاگردوں نے اُسے اُن سے روایت کیا ہے ۔ اُس میں امام مالک نے نماز میں ہاتھ باندھنے پر باقاعدہ باب باندھ کر اِس سے متعلق دو روایات بھی نقل کی ہے ۔ جس سے اِسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ بعد کے مالکی فقہا کی رائے سے قطع نظر،اُن کی اپنی رائے بہرحال ہاتھ باندھنے ہی کی تھی ۔

4 ۔ جیساکہ اوپر بیان ہوا ؛ اُن کا کوئی ایک نہیں ، بلکہ متعدد شاگرد اُن سے اِس قول کو روایت کرتے ہیں ۔ بر خلاف ابن القاسم کے جو اپنی روایت میں منفرد اور تنہا ہیں ۔

5۔ محققین مالکیہ نے بھی،جیساکہ اوپر بیان ہوا، اُن کے اِسی قول کو اختیار ہے ۔

چنانچہ ہمارے نزدیک لوگوں کا یہ کہنا کہ امام مالک کی رائے میں نماز کے قیام میں ہاتھ چھوڑ کر رکھنا سنت ہے،اُن سے مروی ایک مرجوح روایت کی بنا پر کہا جاتا ہے ، جسے علمی طور پر اُن سے ثابت کرنا آسان نہیں ہے ۔

کیا ہاتھ باندھنےپر امت کا اجماع نہیں ہے ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے دیکھا جائے تو اِس عمل کو اُمت اپنے علم وعمل سے بالاتفاق سنت قرار دیتی ہے ۔ آپ کی نسبت سے اِس معاملے میں کوئی دوسری بات کہیں پائی ہی نہیں گئی ۔ چنانچہ آخر میں یہ بات بھی بالخصوص جان لینی چاہیے کہ اِس مسئلے میں اُمت کے ایک اقلِّ قلیل گروہ میں سنت سے مختلف ایسے نقطۂ نظر کا وجود جس کا دین میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے ، اُمت کے اُس اجماع اور عملی تواتر کو توڑنے کی قطعاً صلاحیت نہیں رکھتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اِس معاملے میں آج تک چلا آرہا ہے ۔ اور جس کی بنیاد ہی پر اُمت نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کو سنت قرار دیتی ہے ۔

اِس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہی کی نسبت سے قرآن مجید کی ایک قراءتِ عامہ پر اُمت کا علمی اتفاق اور قولی تسلسل ہے ، جسے اُسے بعد میں وجود پذیر ہونے والی دیگر قرآنی قرا ءتیں کسی طرح نہیں توڑسکیں ۔ یہ چیز تو تبھی ہو سکتی تھی کہ جب ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی اِس رائے کے حق میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے قول وفعل سے کوئی دلیل فراہم کی جاتی،جیساکہ رفع یدین اور عدم رفع یدین کے باب میں ہوا ہے ۔

مجیب: Muhammad Amir Gazdar

اشاعت اول: 2015-10-18

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading