سوال
میرا سوال یہ ہے کہ کیا مختصر فاصلے کے سفر کے دوران کوئی شخص روزہ رکھ سکتا ہے؟ قرآن میں ہے کہ جب تم سفر میں ہو تو بعد کے دنوں میں رمضان کے روزوں کی گنتی پوری کر لو؟برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔
جواب
مسافر کے لیے یہ رعایت دی گئی ہے کہ وہ رمضان کے روزوں کی گنتی بعد کے دنوں میں پوری کر لے۔ اسی طرح مسافر کے لیے یہ رعایت بھی ہے کہ وہ نماز قصر کر لے۔ مطلب یہ کہ چار کعت والی نمازوں یعنی ظہر، عصر اور عشا میں چار کی جگہ دودو رکعتیں ادا کر لے۔ تاہم مسافر کسے کہتے ہیں ، اس کا تعین دین کی طرف سے نہیں کیا گیا۔ اسی لیے زمانۂ قدیم سے اہل علم میں اس بات پر اختلاف ہے کہ گھر سے نکل کر سفر کرنے والے پر مسافر کا اطلاق کب کریں گے۔ اہلِ علم کے اختلافات و اقوال کی تفصیل اور ان کی روشنی میں سفر کی تعیین ایک طویل بحث ہے ۔تاہم اہم بات یہ ہے کہ دورِ جدید میں ذرائع آمد و رفت میں جو تبدیلیاں آ چکی ہیں ، اس کی بنا پر مسافر کی تعیین میں اب فیصلہ کن عنصر یہ نہیں رہا کہ سفر کتنا طویل ہے؟ اس لیے کہ جو سفر قدیم زمانہ میں دنوں ، بلکہ مہینوں میں کیا جاتا تھا وہ اب گھنٹوں میں طے ہوجاتا ہے۔ اسی طرح تیز، ہموار اور ائیرکنڈیشنڈ سواریوں نے مشقت کے عنصر کو نسبتاً بہت کم کر دیا ہے۔ چنانچہ اب اس مسئلے پر نئے حالات کی روشنی میں غور و فکر ضروری ہے ۔
ہمارے نزدیک نماز میں قصر کی رعایت ہر اس شخص کو ملنی چاہیے جو سفر کی ہڑ بونگ، آپا دھاپی، پریشانی و مشقت، غیر یقینی اور بے اطمینانی جیسے مسائل کا شکار ہوجائے۔ سفر میں اسی طرح کے مسائل کا شکار لوگوں کوروزوں کی گنتی دوسرے دنوں میں پوری کرنے کی رعایت ملنی چاہیے۔ خاص کر وہ سفر جس میں مشقت و تکان کے عناصر بھی شامل ہوں۔ یہ عناصر نہ ہوں تو آدمی کو روزہ رکھ لینا چاہیے۔ اس پس منظر میں اگر غور کیجیے تو کراچی سے لاہور تک کا سفر بذریعہ جہاز جو گرچہ ناپ کے اعتبار سے ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے ، حقیقتاً ایک دو گھنٹے کا بہت آسان سفر ہے۔ اس کے دوران میں بظاہر کوئی ایسی مشکل نظر نہیں آتی کہ آدمی روزہ نہ رکھ سکے ۔مگر سو کلومیٹرکا وہ سفر جو کسی ناہموار راستے پر پبلک ٹرانسپورٹ میں کیا جائے ، ایک بہت پرمشقت عمل ہوتا ہے۔ اس لیے وہاں یہ رعایت ہونی چاہیے ۔ گویا اب ساری صورت حال کا جائزہ لے کر رعایت سے مستفید ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ خود آپ ہی کو کرنا ہو گا۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-12-25