قبر کو پختہ بنانے کی شرعی حیثیت

47

سوال

کیا قبر کو پختہ بنایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ میں نے سنا ہے کہ قبر کو پکا بنوانا جائز نہیں ہے ۔ کیا یہ بات درست ہے ؟ دین میں یہ حکم اگر ثابت ہے تو پھر میرا سوال یہ ہے کہ اِس ممانعت کی اصل وجہ کیا ہے ؟

جواب

اِس باب میں در اصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرفوع حدیث نقل ہوئی ہے ، جو حدیث کی متعدد کتابوں میں الفاظ کے معمولی فرق کے اِس طرح روایت کی گئی ہے :

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے ، اُس پر بیٹھنے اور اُس پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے ۔ بعض طرق میں یہ بات بھی ساتھ ہی بیان ہوئی ہے کہ آپ نے قبر پر لکھنے سے بھی منع فرمایا ہے ۔ (احمد،رقم 14181۔مسلم،رقم 970۔ ابودواد،رقم 3225۔صحیح النسائی/البانی،رقم 2026)

اِس روایت سے استدلال کرتے ہوئے اگرچہ علما وفقہا نے بالعموم پختہ قبر بنانے اور اُس پر عمارت تعمیر کرنے کی ممانعت کا حکم اخذ کیا ہے ، تاہم حکم کی حیثیت یعنی درجۂ ممانعت کو متعین کرنے میں اُن کے مابین مندرجہ ذیل اختلاف پایا جاتا ہے :

امام صنعانی ، شوکانی اور البانی رحمھم اللہ کی رائے کے مطابق قبر کو پختہ بنانا اور اُس پر کوئی عمارت تعمیر کرنا حرام یعنی دین میں قطعاً ممنوع ہے ۔ (سبل السلام ،561/2۔ نیل الاوطار ، 114/4 ۔ تلخیص احکام الجنائز ، ص : 8-84)

دوسری رائے اُمت کے اکثر علما کی ہے ؛ جس کے مطابق قبر کو پختہ بنانا اور اُس پر کوئی عمارت تعمیر کرنا دین میں مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے ، حرام نہیں ہے ۔ (البنایۃ للعینی،259/3۔بدائع الصنائع للکاسانی،359/2۔الروض المربع للبھوتی،351/1۔المبدع لابن مفلح،352/1)

تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قبر کو پختہ بنانا مکروہ ہے اور اُس کو کسی عمارت سے بلند کرنے میں حکم کی تفصیل اِس طرح سے ہے :

۱ ۔ ایسی قبر اگر بالکل ہی کسی بے آباد جگہ بنائی گئی ہے یا وہ جگہ کسی کی ایسی ملکیت میں ہے کہ اہل شرک وفساد میں سے اُس قبر کی تعظیم کے لیے کوئی شخص وہاں آسکتا ہے،نہ اِس مقصد سے وہ بنائی ہی گئی ہے؛تو اِس صورت میں حکم کراہت کا ہوگا۔

۲۔ اگر پہچان قائم کرنے کی غرض سے دوسری قبروں سے اُسے اِس طرح ممیز کیا گیا ہے تو جائز ہے ۔

۳۔اُس جگہ پر اگر ہر شخص کا آنا جانا ہے جیسے مثال کے طور پر قبرستان ہے ؛ تو ایسی جگہ پر قبر کی اونچی تعمیر مطلاقاً حرام ہے ۔ یہ تیسرا نقطۂ نظر مالکیہ اور شافعیہ کا ہے ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی، 34/7۔الثمر الدانی للازھری،275/1۔کفایۃ الطالب للمنوفی، 531/1۔کفایۃ الاخیار للحصنی،ص:162)

فقہا کے مابین اِس اختلاف کے مندرجہ ذیل دو اسباب ہیں:

ایک یہ کہ بنیادی طور پر اُن کی آرا باہم اِس پہلو سے مختلف ہیں کہ قبروں سے متعلق اِن امور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جو روکا ہے ، تو اِس نہی سے آپ کی مراد کیا ہے ؟ یہ نھی اگر تو حقیقی نھی ہے ، تو پھر قبروں سے متعلق یہ اعمال حرام قرار پائیں گے ۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے یہ ممانعت مجازی ہے ، تو اُس صورت میں حکم کراہت ہی تک محدود رہے گا ۔

چنانچہ جن فقہا نے اِسے حقیقت پر محمول کیا ؛ اُنہوں نے حرمت کی رائے دی ۔ اور جن کے نزدیک یہ نہی مجازی ہے؛ اُنہوں نے محض کراہت کا حکم لگایا ۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ فقہا در اصل اِس پہلو سے بھی آپس میں مختلف ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نہی اپنی ذات میں مقصود اور تعبدی امر ہے یا پھر اِس کے پیچھے ایک متعین حکمت اور علت ہے جو اصلاً شارع کو مقصود ہے ؛ اور وہ قبروں کی پرستش،اُنہیں سجدہ گاہ بنانے،اہل قبر سے تبرک اور اُن سے شفاعت طلب کرنے کا سدِّ ذریعہ ہے ؟

چنانچہ جن علما نے کہا کہ آپ کی نہی اپنی ذات میں مقصود ہے اور سد ذریعہ کے لیے بھی ہے ؛ تو اُنہوں نے حرمت کا حکم لگایا ۔ اور جن علما کے نزدیک آپ کی نہی محض سدِّ ذریعہ کے لیے ہے؛تاکہ معاملہ کہیں قبروں کی پرستش تک نہ جا پہنچے ، تو اُنہوں نے حکم کو بیان کرنے میں تفصیل سے کام لیا اور کہا کہ اِس طرح کی قبر اگر کسی ایسے احاطے میں واقع ہے جو کسی کی ذاتی ملکیت ہے اور جہاں اہل شرک کی رسائی کا کوئی امکان نہیں ہے ؛ تو یہ مکروہ ہے ، اور اگر کسی ایسی جگہ پر ہے جہاں ہر شخص آجا سکتا ہے ، تو پھر حرام ہے ۔

فقہاے سلف کے اِن تمام تر اختلافات سے قطع نظر ہمارے نزدیک اخبار آحاد(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اُن روایتوں سے جنہیں آپ سے ایک ، دو یا چند افراد ہی نقل کر رہے ہیں)میں بیان کردہ اِس طرح کے شرعی نوعیت کے احکام کو اخذ کرنے اور اُنہیں صحیح طور پر سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل مقدمات کا جاننا نہایت ضروری ہے :

دیکھیے ، ممنوعاتِ دین میں سے ایک وہ حرمتیں ہیں جن کی حیثیت دین میں مستقل بالذات اور مطلق ممنوعات کی ہے۔ جیسے شرک ، قتل ، زنا ، بے حیائی ، حق تلفی ، ناحق زیادتی ، جھوٹ ، سود ، شراب نوشی ، یتیم کا مال کھانا ، ناپ تول میں کمی کرنا ، جھوٹی گواہی دینا ، کھانے پینے میں سؤر، خون مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیےگئے جانور کی حرمت وغیرہ ۔ یہ اور اسی طرح کے دیگر اخلاقی اور شرعی محرمات جن کی حرمت کا بیان پوری قطعیت اور صراحت کے ساتھ قرآن مجید یا سنت میں موجود ہے اور جن کی اساسِ حرمت پروردگار عالم نے انسان کی فطرت میں بھی الہام کردی ہے ۔ اور جن کا دین میں ممنوع ہونا محض کسی ایسی علت کی بنا پر نہیں ہے کہ وہ سبب اگر نہ پایا جائے تو اِس طرح کا کوئی عمل جائز بھی قرار دیا سکتا ہے ۔ یہ اپنی اصل ہی کے اعتبار سے منجملہ منکرات ہیں ۔ ایسی حرمتوں کا ماخذ چونکہ قرآن یا سنت ہے،چنانچہ اِسی وجہ سے دین میں اِن کا ثبوت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آج تک اُمت کے اجماع کی بنا پر یقین کے درجے کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس طرح کی ممنوعات کی حرمت کے ضمن میں علما وفقہا کے مابین کوئی اختلاف بھی نہیں پایا جاتا ۔ اِن مستقل بالذات اور علی الاطلاق حرمتوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اِن کا ارتکاب آدمی اگر جانتے بھوجتے کرتا ہے تو اُس کا یہ عمل بہرحال اُس کے نفس کی پاکیزگی پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے الّا یہ کہ آدمی حدود الٰہی کو پے در پے پامال کرکے اپنی فطرت ہی کو مسخ کربیٹھا ہو ۔

یہ تھیں پہلی قسم کی دینی حرمتیں ۔ دوسری قسم کی ممنوعات وہ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کی اُن روایتوں (اخبار آحاد) میں بیان ہوئی ہیں جنہیں ہم ذخیرۂ حدیث میں پاتے ہیں ؛ جیسے تصویر ، موسیقی ، اسبال حرمتِ رضاعت اور زیر بحث مسئلہ یعنی قبروں کو پختہ بنانے کی ممانعت اور اِسی طرح کی دیگر ممنوعات ۔

اِس طرح کے احکامِ حدیث کے باب میں ہمارا نقطۂ نظر تحقیق وتفصیل کا ہے ؛ جس کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ دین کی مذکورہ بالہ مطلق اور مسقل بالذات اخلاقی اور شرعی حرمتوں پر یہ ممنوعات کوئی اضافہ ہیں ، نہ یہ حرمتیں علی الاطلاق ہی ہیں ۔ اِن کے حوالے سے اہل علم کے مابین روایت کا اختلاف ہوسکتا ہے اور درایت کا بھی ۔ پھر کس رائے کو قبول کیا جائے اور کس کو رد کیا جائے ؟ اِس کا فیصلہ بہر حال دلائل ہی کی بنیاد پر ہوگا ۔

ہمارے نزدیک اِس طرح کا کوئی حکم جب کسی خبر واحد میں بیان ہوگا تو اُس کے حوالے سے سب سے پہلے اُس کی حیثیتِ روایت کو دیکھا جائے گا ۔محدثین کے اُصول کے عین مطابق اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس کا استناد قابل اعتماد ذریعہ سے ثابت نہیں ہوتا تو اُسے رد کردیا جائے گا۔ اور اگر وہ روایت ‘صحیح’ سند سے ہم تک پہنچی ہے اور اُس میں کوئی بات قرآن وسنت اور علم وعقل کے مانے ہوئے حقائق کے خلاف بھی نہیں ہے تو بلا شبہ اُس میں بیان کردہ حکم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حکم کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا ۔ پھر جیساکہ بیان ہوچکا ، چونکہ اِس طرح کی ممنوعات کی حیثیت دین میں مستقل بالذات نہیں ہے،چنانچہ قبول کرلینے کے بعد ہم اُس باب کی تمام روایتوں کو جمع کر کے اُن پر ہر پہلو سے غور وتدبر کرتے ہیں ۔ اُس روایت کے الفاظ کو عربیت کے لحاظ سے بھی دیکھتے ہیں ۔ اُس کے متن کو قرآن یا سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہے۔ اُس حکم کی کوئی اساس اگر قرآن ، سنت یا الہامِ فطرت میں دریافت ہوجائے تو اس کا الحاق ہم اُس کے ساتھ کردیتے ہیں ۔ صحیح نتیجے تک پہنچنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس ارشاد کے موقع ومحل کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں ۔ اُس حکم کو علم عقل کے مانے ہوئے حقائق کے تحت رکھ کر بھی دیکھتے ہیں ۔

اِس طرح روایت ودرایت کے اعتبار سے اُس پر تدبر کرنے کے بعد ہم اُس سے کوئی حکم اخذ کرتے ہیں ۔

موضوع بحث سوال کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر کا خلاصہ درج ذیل ہے :

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اِس مسئلے سے متعلق دو حقیقتیں بالکل واضح اور متعین ہیں :

ایک یہ کہ قبروں کو کچا اور اِس طرح بنانا کہ اُن کا کوئی امتیاز اور اہل قبور کا کوئی نام ونشان ہی باقی نہ رہے؛اسلامی شریعت میں اِس کی علی الاطلاق فرضیت کا کہیں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے اور نہ ہی بالعموم مسلمانوں کا اِس پر کبھی کوئی عمل رہا ہے ۔

دوسرے یہ کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قبروں کی عمدہ تعمیر،اُنہیں بلند کرنا،اُن کی تزیین وآرایش کا خاص اہتمام کرنا خود اپنی ذات ہی میں دینی اعتبار سے کوئی پسندیدہ اور اچھا عمل نہیں ہے ۔

موضوع بحث مسئلے کا ماخذ چونکہ براہ راست قرآن مجید یا سنت نہیں ہے ، بلکہ ایک حدیث نبوی ہے جس کی حیثیت خبر واحد کی ہے ، چنانچہ اِس سے دو باتیں ثابت ہوئیں:

ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس حکم کا ثبوت قرآن وسنت کی طرح بہرحال قطعی اور یقینی تو نہیں ہے، بلکہ خود محدثین ہی کی اصطلاح کے مطابق اِس کا ماخذ اپنے ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہے ۔

دوسرے یہ کہ ممنوعاتِ دین کی مذکورہ بالہ دو قسموں میں سے اِس حکم کا تعلق دوسری قسم سے ہے ۔

چنانچہ ہمارے نزدیک علی الاطلاق کوئی مستقل حرمت تو اِس سے ثابت نہیں کی جاسکتی ۔ محض قرآن یا سنت کی روشنی ہی میں اِس سےحکم اخذ کیا جائے گا ۔

یہ بات البتہ ، درست ہے کہ قبروں سے متعلق اِس حکم کو بیان کرنے والی حدیث محدثین کے نزدیک اپنی سند کے اعتبار سے ‘صحیح’ ہے ، اور اِس کے متن میں کوئی بات قرآن وسنت اور علم وعقل کے مسلمات کے خلاف بھی موجود نہیں ہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اِسے کسی طرح رد نہیں کیا جاسکتا ؛ یہ ایک مقبول روایت ہے ۔

اِس موضوع سے متعلق ذخیرۂ حدیث کی تمام روایات کو جمع کرنے سے پوری صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ اِس حکم کی اصل علت اور سبب اہل شرک کے ہاں زمانۂ قدیم سے اہل قبر اور قبروں سے متعلق بعض شرکیہ اعتقادات اور اعمال کا بکثرت پایا جانا،اہل قبر سے تبرک،اُن کی تعظیم اور اُن کی قبروں کی پرستش کرنا تھا ۔ جبکہ انبیا کا دین تو دینِ توحید ہے جو حقوق اللہ کے باب میں سب سے پہلے کسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ ‘توحید’ ہے اور سب سے پہلے جس چیز کی نفی کرتا ہے وہ ‘شرک’ ہے ۔

چنانچہ اِس حکم کے پیچھے موجود اِس علت کو ہم اگر سامنے رکھیں تو قرآن میں اِس حکم کی اساس بھی بالکل واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے ۔ یعنی قبروں کو پختہ کرنے اور اونچا تعمیر کرنے کی یہ ممانعت اسلامی شریعت کا کوئی مستقل بالذات اور علی الطلاق حکم نہیں ہے،بلکہ اِس کا تعلق در اصل ایمانیات میں شرک کی نفی سے ہے۔

حدیث وتاریخ کی دیگر روایات سے مزید یہ بات بھی ہمارے سامنے آتی ہے کہ اہل شرک کا طریقہ یہ تھا کہ جب اُن میں سے کوئی نیک اور صالح آدمی وفات پاجاتا تو وہ اُس کی قبر پر مسجد تعمیر کرکے اُسے سجدہ گاہ بنا لیتے تھے ۔ انبیا کی قبروں کو بھی سجدہ گاہ بناتے تھے ۔ چنانچہ آپ نے اِس کی سخت مذمت فرمائی ۔(بخاری،رقم 434)

قبروں سےمتلعق اِس طرح کی شرکیہ غلاظتوں کا عام رواج تھا تو آپ نے اونچی قبروں کو باقی قبروں کے برابر کردینے کی ہدایت بھی فرمائی ۔(مسلم،رقم 969)

قوم نوح کے بارے میں بھی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے نیک اور صالح لوگوں کی وفات کے بعد اُنہی کے کچھ پیروکار اُن کی قبروں کے پاس آکر بیٹھ جاتے اور وہاں معتکف ہوجاتے،پھر وہیں قبر والوں کی تصاویر بناتے پھر کچھ ہی عرصہ بعد اُن کی پرستش میں مبتلا ہوجاتے (البدایۃ والنھایۃ،2/190۔ابحاث ھیئۃ کبار العلماء ،7/493)

قبروں کی در اصل ایسی ہی زائرات(زیارت کرنے والی عورتیں)،قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والے اور اُن پر روشنیاں جلانے والے ہیں،جن پر رسول اللہ نے لعنت فرمائی ہے ۔(ابوداود، رقم 3236)

بعض روایتوں سے معلوم ہوتا کہ یہود و نصاری نے بھی اِسی طرح اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا،چنانچہ آپ نے اُن پر بھی لعنت فرمائی ۔ (بخاری،رقم 1330)

غرضیکہ معلوم ہوا کہ اہل شرک اور یہاں تک کہ بعض انبیا کے پیروکاروں کی وابستگی بھی قبروں کے ساتھ شرکیہ نوعیت کی ہوچکی تھی ۔ وہ قبروں کو پختہ کرتے،اُنہیں بلند تعمیر کرتے،اُن کے پاس بیٹھے رہتے اور معتکف ہوجاتے یا اُن پر کچھ لکھتے یا تراشتے؛اِس سب کچھ کی وجہ در اصل اُن کے شرکیہ اعتقدات تھے ۔ چنانچہ قبروں سے متعلق اِس طرح کے تمام اعمال کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں جو ممانعت وارد ہوئی ہے،شرک ہی کے سدِّ ذریعہ کے طور پر ہوئی ہے ۔ یعنی اصل مقصود زمین پر سے قبروں کا نام ونشان ہی مٹادینا نہیں ہے،بلکہ شرک اور شرک کی طرٖف لے جانے والی ہر چیز سے روکنا ہے ۔

آج بھی قبروں کے ساتھ اِس طرح کی شرکیہ وابستگی اور اُس پر مبنی اعمال اگر مسلمانوں میں یا اُن کے کسی بھی معاشرے میں پائیں جائیں گے تو محض احادیث ہی کی بنیاد پر نہیں،بلکہ قرآن مجید کی نفی شرک پر مبنی ہر آیت کی بنیاد پر بھی نہ صرف یہ کہ ایسے اعمال کی حرمت بیان کی جائے گی،بلکہ مسلمانوں کو اُن سے سختی سے روکا جائے گا۔

تاہم مسلمانوں کو قبروں کی عمومی زیارت کی نہ صرف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے،بلکہ آپ نے مزید فرمایا کہ : قبروں کی زیارت کرو کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائیں گے (ترمذی،رقم 1054)۔ چنانچہ اِس مقصد سے اہلِ توحید کا قبروں کے پاس بیٹھنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے،بلکہ پسندیدہ ہے ۔

اِسی طرح اہل توحید کا قبروں کو کچھ اہتمام سے بنانا،اہل قبر کا نام اور تاریخِ وفات وغیرہ لکھنا کہ ایک قبر دوسری سے الگ پچانی جائے،جیساکہ بالعموم مسلمانوں کا طریقۂ عمل ہے؛ہمارے نزدیک اِس میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔ شرک کی ہر غلاظت سے پاک اِس طرح کے کسی بھی عمل کی ممانعت کی کوئی دلیل نہ قرآن میں موجود ہے ، نہ احادیث ہی کی بنیاد پر اِسے ثابت کیا جاسکتا ہے ۔

مجیب: Muhammad Amir Gazdar

اشاعت اول: 2015-10-18

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading