سوال
ميں جاننا چاہتی ہوں كہ غامدی صاحب كی نظر ميں كون سی تفسير بہتر ہے۔ ميں نے مولانا مودودی كی تفہيم القرآن كا مطالعہ كيا ہے مگر اس كے كچھ حصوں سے مجھے اتفاق نہيں ہو سكا۔ ميں عربی پڑھ اور سمجھ سكتی ہوں اور جب كوئی ترجمہ پڑھتی ہوں تو احتياط سے كام ليتی ہوں۔ مجھے احساس ہوتا ہے كہ اكثر مترجم اس بات كا خيال نہيں ركھتے كہ قرآن، جسے وہ ترجمہ كر رہے ہيں، شاعری سے قريب ہے نثر نہيں۔ وہ لفظی ترجمہ ميں اصل مفہوم كو نظر انداز كر سكتے ہيں۔
ميرا دوسرا سوال يہ ہے كہ ايسا كيوں ہے كہ قرآن مجيد ميں بعض تاريخی واقعات بار بار اور چند ديگر امور وضاحت سے بيان كئے گئے ہيں اور كچھ اہم باتيں بہت ہی اجمال سے بيان كی گئی ہيں۔ اس وجہ سے بہت اہم مسائل پر اختلاف پيدا ہوا ہے۔
ميرا تيسرا سوال يہ ہے كہ قرآن مجيد ميں اللہ تعالی، آدم، فرشتوں اور ابليس كے مكالمہ سے معلوم ہوتا ہے كہ الله تعالی كو ابليس كی سركشی سے حيرت ہوئی۔ يہ بات مجھے طرز كلام سے سمجھ آتی ہے۔ايسا كيوں ہے؟ جبكہ الله تو سب جانتا ہے۔
ميرا چھوتھا سوال قرآن كے سمجھنے سے متعلق ہے۔ اگرچہ قرآن عربی ميں ہے اور ہميں چاہيے كہ ہم عربی سيكھيں تاكہ براہ راست كلام الله كو سمجھ سكيں اور مترجمين كے مرعون منت نہ رہيں۔ مگر كيا عرب دنيا كے لوگ قرآن كو صحيح سمجھ ليتے ہيں؟ ميرا خيال ہے كہ نہيں۔ وہ تو بہت اختلاف ميں پڑے اور بسا اوقات غلط تاويل كر جاتے ہيں۔ تو صحيح تاويل تك پہنچنے كا كيا طريقہ ہے؟ صحيح تاويل تو ہدايت كی طرف لے جانے والی ہے۔
ميں تو ہميشہ قرآن پر ايمان ركھتی اور عمل كرتی ہوں۔ حديث كا مطالعہ بھی كرتی ہوں مگر اس كے صحت سند كے حوالے سے سولات كی وجہ سے بہت احتياط كرتی ہوں۔ عجيب بات يہ ہے كہ مذہبی علماء سے ہم جو جانتے اور سيكھتے ہيں وہ قرآن كی تعليمات سے مطابق نہيں ہوتا۔ يہی حال سعودی علماءكے فتاوی كا ہے۔ غامدی صاحب سے مجھے ہميشہ آيات كے صحيح معنی جاننے ميں مدد ملی ہے۔ كيا وہ كوئی تفسير يا ترجمہ كر رہے ہيں۔ اگر نہيں تو وہ كس كی تفسير يا ترجمہ اختيار كرتے ہيں؟
جواب
آپ کے سوالات کے جواب حسب ذیل ہیں۔١)آپ کے ذوق اور عربی زبان کے حوالے سے آپ کے پس منظر کی بنا پر بہتر ہوگا کہ آپ مولانا امین احسن اصلاحی کی تدبر قرآن کا مطالعہ کرلیں۔ امید ہے کہ آپ کے بہت سے اشکالات دور ہوجائیں گے۔٢)قرآن کریم کی دعوت کا بنیادی مقصد انسان کے لیے آخرت کی نجات کا لائحہ عمل واضح کرنا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جن چیزوں پر آخرت کی نجات منحصر ہے، انہیں قرآن کریم نے بہت تفصیل کے ساتھ بار بار بیان کیا ہے۔ ان میں ایمانیات اور اس کے دلائل اور اخلاقی حوالے سے فرد پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ انہی کو عام زبان میں حقوق رب اور حقوق العباد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
تاریخی واقعات قرآن کریم میں تاریخ نگاری کے فن کے طور پر بیان نہیں ہوئے۔ بلکہ یہ ان قوموں کے احوال ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی بعثت ہوئی اور ان قوموں نے رسولوں کی طرف سے دی جانے والی ایمان و اخلاق کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جس کے بعد ایک فیصلے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل کیا اور انہیں ایک نشان عبرت بنادیا۔ ان کے تذکرے سے بھی یہی مقصود ہے کہ لوگوں کے دل و دماغ میں یہ حقیقت نقش ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کے نتیجے میں انسان اللہ کی گرفت کا شکار ہوجاتا ہے۔ جہاں تک شرعی امور کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں بھی یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ان کی بھی قرآن کریم میں بڑی تفصیل کی گئی ہے۔ اور ان میں بھی کوئی بڑا اور اصولی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی تو یہ Interpretation کی غلطی ہوگی جس کے نتیجے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آنے کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔
٣)اللہ تعالیٰ کو کسی چیز پر حیرانی نہیں ہوتی۔ اس لیے نہیں ہوتی کہ کوئی بھی چیز ان کے لیے نئی نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں یہ بات بیان ہوئی ہو کہ ابلیس کے انکار پر اللہ تعالیٰ کو حیرت ہوئی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب اس نے سجدے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے انکار کے سبب کو واضح کرنے کے لیے اسے ایک سوال کی شکل میں پیش کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے کیا تھا کہ دیگر مخلوقات پر ابلیس کی غلطی واضح ہوجائے۔ اس کا سبب یہ بالکل نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے انکار کیوں کیا ہے۔
٤)جو مفسر بھی قرآن کی تفسیر لکھتا ہے وہ نہ صرف اپنا نقطہ نظر بیان کرتا ہے بلکہ اس کی دلیل بھی دیتا ہے۔ ایک عام آدمی کے لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ وہ مختلف اہل علم کی تفاسیر دیکھ لیا کرے اور جن اہل علم کی رائے اور دلائل پر اس کا اطمینان ہو اسے اختیار کرلے۔ یہی ایک عام آدمی کے لیے قرآن کے مدعا کو پانے کا صحیح راستہ ہے۔
٥)ہم نے شروع میں جس تفسیر کا حوالہ دیا ہے یعنی تدبر قرآن، وہ جاوید غامدی صاحب کے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی کی تصنیف ہے۔ جاوید صاحب انہی کے اصولوں کے مطابق قرآن کریم کو سمجھتے ہیں۔ اس پہلو سے بھی آپ اس تفسیر کا مطالعہ کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ جاوید صاحب ‘البیان ‘کے نام سے قرآن کریم کا ترجمہ اور مختصر تفسیر خود بھی کررہے ہیں۔ ان کا یہ کام ابھی نامکمل ہے۔ آپ ادارے کے ذمہ دار حضرات سے رابطہ کرکے اس حوالے سے دستیاب مواد حاصل کرنے کا طریقہ معلوم کرسکتی ہیں۔
اس جواب کے کسی پہلو کے حوالے سے اگر کوئی بات مزےد وضاحت طلب ہے توآپ بلا جھجک ہم سے رابطہ کريں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بات درست ہے اسے ہمارے دلوں ميں راسخ فرمادے اور ہماری غلطيوں کو معاف فرماکر صحيح بات کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے،آمين۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-05